ریاست کا چوتھا ستون بلیک میلروں کے نرغے میں…..عبدالحنان راجہ

وطن عزیز میں اقتدارکے ایوانوں سے لے کر منبر ومحراب تک ہی افراتفری، نارسائی، بدعنوانی اورلوٹ مار کا بازار گرم ہے مگر مقدس پیشے اور محنت طلب شعبے میں کالی بھیڑیں در آئی ہیں،یہ المناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے، صحافت کو آزاد جمہوری ریاست میں چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، قومی اخبارات ہمیشہ جمہوریت کا ایک پایہ رہے ہیں، ہمارے ملک میں قومی ذہن کی ساخت انہی اخبارات کی مرہون منت ہے، فلاح عامہ، خبروں اور معلومات کی فراہمی، عوامی حقوق کی علمبرداری، معاشرتی روایات کا احترام،یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ہمارے قومی اخبارات آداب صحافت کا قصر تعمیر کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے انہی اخبارات میں کچھ گھس بیٹھے زرد صحافی کا کردار ادا کر کے اخبار کی نیک نامی خاک میں ملانے کا سبب بنتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہردور میں زرد صحافت ہوتی رہی ہے لیکن ماضی میں ایسے صحافی جن کو آج کل کی جدید زبان میں لفافہ کہاجاتا ہے، ان کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔ صحافی اپنے پیشے کی اہمیت کو سمجھتے بھی تھے اور ان کے نزدیک عوام تک حقائق پہنچانا جان سے بھی زیادہ عزیز تھا یہی وجہ ہے کہ اخبارات سے وابستہ فوٹو گرافر اور رپورٹر حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر قید و بند کی سختیاں برداشت کرتے اور اکثر اوقات جان سے ہاتھ دھوتے بھی نظر آتے تھے، موجودہ دور میں صورتحال قدرے تبدیل نظر آتی ہے ۔فرضی ، من گھڑت ، بناوٹی یا جھوٹی خبر زرد صحافت یا پروپیگنڈا کی قسم ہے ایسی خبر میں دانستہ غلط بیانی یا دھوکہ دہی کے عناصر شامل کرنے کا مقصد خاص نتائج حاصل کرنا ہوتا ہے جسکی تشہیر کیلئے روایتی خبروں کے ذرائع (نشرو اشاعت )، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ،یوٹیوب یادیگر انٹرنیٹ کے ذریعے کی جاتی ہے ، غلط اطلاعات اورفرضی خبر کی اپنی اہمیت ہے۔ اکثر اس کے لیے غلط بیانی، دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس سے عوام کی ذہن سازی کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جاتے ہیں ، فرضی ، من گھڑت ، بناوٹی یا جھوٹی خبر کو سنسنی خیز انداز میں سچ بناکر پیش کیا جانازرد صحافت کہلاتا ہے ۔۔جھوٹی خبر کو ایسے بھیانک انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے ،زدرصحافت اور بلیک میلنگ کی وجہ سے صحافت خوف کا شکار ہے ،جعلی یا فیک خبروں کی وجہ سے صحافت کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑا چیلنج درپیش ہے ۔صحافت اب سچ ،ایمانداری ،بہادری اور بغاوت کا شعبہ نہیں رہا ،چند کالی بھیڑوں نے جھوٹ ،منافقت ،فریب اور مکاری کا نام صحافت رکھ دیا ہے ۔ان کالی بھیڑوں کا کام اپنے وسائل بڑھانا ،مافیاز کا حصہ ہونا ،کاروباری افراد،سرمایہ کاروں کو حیلے بہانوں سے ہراساں کرنا انکے خلاف بے بنیاد من گھڑت خبریں شائع کرنا اور پھر انہی خبروں کو بنیاد بنا کر اداروں اور کاروباری شخصیات کوبلیک میل کرکے پیسے کمانا انکی اولین ترجیح ہے ،جس طرح سفید بھیڑوں میں ایک کالی بھیڑ نمایاں دکھائی دیتی اسی طرح زرد صحافت کے جلوے بھی کسی نہ کسی طور نمایاں نظر آ تے ہیں۔ گو کہ ایسے کرپٹ افراد کا علم ،ادب اور صحافت سے تعلق آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتا ہے مگر وہ پھیپھڑوں کے زور پر اپنے سیاہ کارناموں کے تذکرے زور و شور اور بڑی آ ن وبان سے کر تے نظر آ تے ہیں۔ صحافت کی کالی بھیڑوں کے قصے اور ان کے کارنامے صحافتی حلقوں سے نکل کر ہر جگہ زیر بحث مگر بوجوہ کبھی عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے، اسے پوری صحافت پر مامور نہیں کیا جا سکتا کہ گنتی کے چند صحافی ہی اس دھندہ میں ملوث جبکہ اکثریت اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف کی کوشش کر تے ہیں اور اس کے عوض ملنے والے محدود معاوضہ پر ہی صابر و شاکرہیں ۔ چند روز قبل اپنے چند دوستوں کی زبانی شہر اقتدار کے ایک معروف صحافی کی غلا ظتوں کے چرچوں نے اس تحریر پر آمادہ کیا کہ صحافت جیسے مقدس پیشہ میں ایسے افرادکی موجودگی صاف اور ْمعطر دودھ میں گندگی کے اُس قطرے کی مانند ہے کہ جو سارے کے سارے دودھ کو ناپاک کر دیتا ہے۔ تحریر کا مقصد دعوی پارسائی نہیں اور اس شعبہ سے منسلک اکثریت بلیک میلنگ اور ناجائز مالی منفعت سے محفوظ ہے، مگر زرد صحافت کے پرچارک کبھی سرکاری اداروں کو بلیک میل تو کبھی کاروباری طبقات کو اپنا صحافتی ڈنگ مارتے نظر آ تے ہیں ۔ غیر معیاری صحافت کی بڑی وجوہات میں صحافتی اداروں میں میرٹ کی بڑھتی ہو ئی پامالی،سفارش کلچر ، ذرائع ابلا غ کے نت نئے رنگ اور رہی سہی کسر سوشل میڈ یا نے پوری کر دی۔ بعض اداروں نے قلم اور مائیک، علم ، تجربہ اور دیانت کی بجائے سفارش اور سیکورٹی کے نام پر رقم لیکر تقسیم کیے جس نے صحافت میں کالی بھیڑوں کی آ مد کا راستہ آ سان کیا جسکی وجہ سے معاشرے کا کوئی شہری اور باسی ان کے شر سے اپنے آ پ کو محفوظ تصور نہیں کر تا۔ جس طرح بعض ادارے ریاست کی ترقی میں رکاوٹ ہیں اسی طرح اس قبیل کے بعض افراد بھی اعلی صحافتی اقدار اور معیاری صحافت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ میڈ یا ہائوسز، صحافتی تنظیموں اور حکومت کے ذمہ دار اداروں کو زرد صحافت کے سد باب کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا کہ یہ ملکی ترقی ،اعلی اخلاقی روایات کے فروغ اور صحافتی اقدار کی بحالی کے لیے از حد ضروری ہے۔ حالا نکہ ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت ملنے کے بعد اس کی حساسیت میں مزید اضافہ ہو گیا مگر بریکنگ نیوز اور سکینڈلز کی اشاعت کے چکر نے ساری صحافتی برادری کی ساکھ کو دائو پر لگا دیا ہے اور تو اور اب صحافت کو کم مدت میں زیادہ کمائی کا ذریعہ سمجھا جا نے لگا ہے۔ شہر اقتدار میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے موسوم اخبار کے ایک ذمہ دار زرد صحافت کی رو میں بہہ کر اپنے وقار اورادارے کی ساکھ کو مجروح کر رہے ہیں۔ایک ذمہ دار صحافی کا قلم بکائو اور ہوس زر کے زیر اثر نہیں ہو تا وہ ہر حال میں اس کی حرمت کا امین اور پاسبان ہو تا ہے ۔
منتخب وزیر اعظم عمران خان عمومی طور پر اپنی تقاریر میں یہ جملہ دھراتے نظر آتے ہیں کہ میں “بلیک میل نہیں ہوگا “جب بھی یہ جملہ کانوں میں پڑتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کس قدر کمزور اور نا توا ں ہے کہ ایک آزاد ملک کا منتخب وزیر اعظم بھی عمومی طور پر یہ کہتا نظر آتا ہے کہ میں اپوزیشن سے بلیک میل نہیں ہونگا ۔ قوانین کے کمزور ہونے پر مافیاز اپنا کام آسانی سے کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے وطن عزیز میں صحافت کا لبادہ اوڑھے کالی بھیڑوں جن کا اوڑھنا بچھونا بلیک میلنگ اور زرد صحافت ہے انکا آسان ہدف کاروباری شخصیات ،سرمایہ کار ہوتے ہیں ،رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک لوگ عمومی طور پر ان کالی بھیڑوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے نظر آتے ہیں ،ہائوسنگ سیکٹراور پراپرٹی کی اہمیت ملکی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بلاشک وشبہ بہت زیادہ ہے کیونکہ ہائوسنگ سیکٹر کی وجہ سے بیس سے زائد صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے مگر اسی شعبے کے ریگولیٹر اور انتظامیہ کی وجہ سے اس شعبے سے وابستہ سرمایہ کارنالاں نظر آتے ہیں ،حکومت کی جانب سے عدم توجہی اور ناقص پالیسیاں بھی انکی حوصلہ شکنی کرتی ہیں ،ہائوسنگ سیکٹر کے ریگولیٹر اور مقامی انتظامیہ کی “مال بنائو”اور” جائز کام میں روڑے اٹکائو “کی پالیسی کی وجہ سے صحافت کا لبادھ اوڑھے بلیک میلرز کی چاندنی ہو جاتی ہے اور وہ ریگولیٹر اور انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے ڈویلیپرکو بلیک میل کرنے میں آسانی سے نہ صرف کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ نقدی اورپلاٹوں کی مدد میں دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے ہیں ،اس طر ح بلیک میلنگ کے مد میں کروڑوں کے اثاثے بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف سرمایہ کار /ڈویلیپر کے پاس شکایت کا فورم موجود ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر اسے تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا ہے ،جسکی وجہ سے سرمایہ کار مایوس ہو کر بیرون ملک منتقل ہوجاتا ہے یا پھر اسی مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر مجبور ہوتا ہے اور وہ اپنی جمع پونچی انکی ناجائز تجوریوں میں ڈالتا رہتا ہے ۔
دنیا کے مختلف ممالک نے راست یا بالواسطہ طور پر جھوٹی اور فرضی خبروں پر روک لگانے کے لیے قانون سازی کی ہے یا پھر مروجہ قانون میں ان معاملات سے نمٹنے کی گنجائش فراہم کی ہے۔ 2019 میں ایشیا کے ملک سنگاپور نے جھوٹی خبریں شائع کرنے والوں کو 10 برس قید کی سزا دینے کا قانون تیار کیا ۔ سنگاپور کی حکومت کو انٹرنیٹ پر گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں سے نمٹنے کے سلسلے میں زیادہ اختیارات ہو جائیں گے۔ مجوزہ قانون میں جھوٹی خبریں دینے والے کو 10 برس تک قید اور جرمانہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ہمارے ہاںمیڈیا ہائوسز کے مالکان کی اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی مفادات ہیں ،وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ،کسی کو برباد کردیتے ہیں اور کسی کی تسبیح کی جاتی ہے ۔سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا ان کے دائیں ہاتھ کاکام ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی اپنی ذمہ داری کو سمجھے کہ ذمہ دارانہ مثبت اور اخلاقیات پر مبنی صحافت ہی اصل صحافت ہے اور اگر ان عناصر کو نکال دیا جائے تو پھر صحافت صحافت نہیں کہلا سکتی۔
ذرائع ابلاغ کی تباہ کن روش معاشرہ کے لیے گوناگوں اخلاقی، معاشرتی، نفسیاتی اور عائلی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ فکری سطح پر انتشار و افتراق اور جذبات کی سطح پر ہیجان بڑھ رہا ہے۔ اعلی اقدار ملیا میٹ ہو رہی ہیں۔ تحمل، عفو ، درگزر اور اخوت و محبت معاشرے میں عنقا ہو رہے ہیں۔ نفسا نفسی بڑھ چکی ہے اور مختلف بھیانک نتائج پیدا کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں