افسر شاہی کی چالاکیاں ——–تحریر: اعجازعلی ساغر

تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں اور ان میں دن بدن اضافہ ھونے لگا پہلے آٹا بحران اور پھر چینی بحران نے سب کی حکومتی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ 2020 اس حوالے سے عوام کیلئے سخت سال رہا 2021 میں بھی عوام کی مشکلات کم نہ ھوئیں لوگ عمران خان اور تحریک انصاف سے نجات کی دعائیں مانگنے لگے کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوادیں ادھر وزیراعظم اور وزرا پریشان تھے کہ ماجرہ کیا ہے اتنا ریلیف دینے کے باوجود لوگوں تک اس کی فراہمی کیوں نہیں ھورہی آخر کیا ماجرا ہے۔
کابینہ اجلاس میں وقتا فوقتا وزرا اور اراکین اسمبلی بیوروکریسی کے حوالے سے وزیراعظم کو شکایت کرتے نظر آئے کہ بیوروکریسی ھمارے جائز کام بھی کرنے کو تیار نہیں وزیراعظم کو چونکہ اپوزیشن نے چاروں طرف سے گھیرا ھوا ہے لہذا انہوں نے بیوروکریسی کو چھیڑنے سے گریز کیا بیوروکریسی جو صدا بہار اور اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتی ہے اس نے لوہلی لنگڑی حکومت کی اس کمزوری کو پکڑ لیا اور کھل کر بدمعاشی پر اتر آئی۔
پہلی حکومتوں میں کرپشن منظم ھوتی تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے دروسرے اور تیسرے سال کرپشن کا یہ حال ہے کہ بغیر کسی ڈر کے سرعام کرپشن جاری ہے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے وزیراعظم عوامی مسائل حل نہ ھونے کی وجہ سے حد سے زیادہ پریشان تھے رمضان آتے ہی انہوں نے عوامی نمائندوں کو مارکیٹس میں اور بازاروں کے وزٹ کا ٹاسک دیا۔
اسی ٹاسک کو لیے گزشتہ دنوں وزیراعلی پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جب سیالکوٹ میں ایک بازار پہنچیں تو وہاں سبزیاں اور فروٹس گلے سڑے پڑے تھے انہوں نے جب متعلقہ اے سی سونیا صدف کو بلایا تو مہارانی ڈبل ڈور ڈالے میں اے سی چلا کر بیٹھی تھیں۔
معاون خصوصی نے ان کو اس بات پہ سرزنش کی کہ عوام گلی سڑی سبزیاں کھا رہی ہے اور آپ اے سی میں بیٹھی آرام فرمارہی ہیں محترمہ بھی چرب زباں نکلیں اور ترکی با ترکی جواب دیا کہ ادھر بہت گرمی اور رش ہے تبھی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ آپ کو تنخواہ اسی بات کی دی جاتی ہے کہ آپ عوام کے مسائل حل کریں نہ کے اے سی گاڑیوں میں بیٹھنے کی۔
مہارانی کو معاون خصوصی یعنی وزیر کا ڈانٹنا بہت برا لگا اور وہ انہیں وہیں چھوڑ کر چلتی بنیں اور فورا چیف سیکرٹری پنجاب کو شکایت لگا دی۔
ظاہر ہے وہ بھی اپنی ہی قبیل کی حمایت کریں گے لہذا انہوں نے بھی بیان داغ دیا کہ ھم معاون خصوصی کے رویے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں انہوں نے بھی فورا وزیراعلی پنجاب کو شکایت لگا دی کہ بیوروکریسی دن رات ایک کرکے گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر عوام کی خدمت کررہی ہے لیکن اس کے باوجود ان کیساتھ ہتھک آمیز رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
اب آتے ہیں اسی طرز کے دوسرے واقعے کی طرف ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے تحریک انصاف کے نوجوان ایم پی اے خرم لغاری نے متعلقہ اے سی شاہد ورک کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کی جسکو ریکارڈ کرکے اے سی صاحب نے وائرل کردیا کہ ایم پی اے صاحب نے ان کی بے عزتی کی ہے وہ سب کی ہمدردیاں لینے کیلئے سوشل میڈیا پہ کھل کر سامنے آگئے کہ مجھے کام نہیں کرنے دیا جارہا۔
جب اس واقعے کی تحقیات کی گئیں تو پتہ چلا کہ خرم لغاری نے اے سی شاہد ورک کو بازار وزٹ کروانے کیلئے فون کیا جسکی انہوں نے حامی بھر لی ایم پی اے صاحب بازار جا پہنچے جبکہ اے سی صاحب نے خراب بیٹری کا بہانہ بنا کر موبائل بند کردیا وہاں جب موصوف کو کال کی گئی تو فون بند,اس بات پر نوجوان سیاست دان کو شدید غصہ آیا کہ یہ سب ڈرامہ بازی کیوں کی جسکا غصے والا حصہ ریکارڈ کرکے وائرل کیا گیا۔
بات یہ ہے کہ سیاستدان کو تو عوام پکڑ لیتی ہے لیکن یہ بیوروکریٹ ساری زندگی وائٹ کالر رہتے ہیں ان پہ کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا پچھلے دنوں کچھ نومنتخب اور پرانے سینیٹرز سے ملاقات ھوئی جو مختلف صوبوں سے تھے باتوں باتوں میں وہ پھٹ پڑے کہ صوبائی اور وفاقی بیوروکریسی ان کو گھاس ہی نہیں ڈالتی وزیراعظم صاحب سے شکایت کرتے ہیں تو اندر بیٹھی بیوروکریسی ھمیں ہی جھوٹا بناکر پیش کرتی ہے ھم جائیں تو کہاں جائیں میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ سینیٹرز ہیں اگر آپ کا اور وفاقی وزرا کا یہ حال ہے تو عام آدمی کا کیا حال ھوتا ھوگا یہ سرکاری مافیا تو عام آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ھوگا انہوں نے میری بات کی تائید کرتے ھوئے کہا کہ بالکل کیونکہ اگر یہ ھمارے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو عام آدمی کا کام کیا حال کرتے ھوں گے۔
یہی صورتحال وفاقی بیوروکریسی کی ہے انتہائی نکمی,کام چور اور انتہا کی کرپٹ,اگر ان کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے تو بیچارہ نوازشریف اور زرداری بھی شودا لگے اپنی آسائیشوں اور کام کیلئے آدھی رات کو بھی آفس کھول لیں گے جبکہ عوامی کام ڈیوٹی ٹائمنگ میں بھی نہیں کریں گے۔
پچھلے دنوں اتفاق سے ایک بیوروکریٹ کے پاس جانا ھوا اچانک ایک وفاقی وزیر کی کال آگئی پی اے نے کہا کہ فلاں وزیر بات کرنا چاہتے ہیں موصوف نے کہا کہ ان کو کہیں کہ صاحب سیٹ پہ نہیں ہیں پی اے نے کہا کہ سر وہ ارجنٹ بات کرنا چاہتے ہیں آپ بات کرلیں تب صاحب بہادر نے کہا کہ چلو بات کروا ھم ان کے آفس میں بیٹھے یہ سب مناظر دیکھ اور سن رہے تھے چونکہ ان کے قریب بیٹھے تھے تبھی لاڈر سے آواز صاف سنائی دے رہی تھی اس دوران لائن کنکٹ ھوئی اور وفاقی وزیر نے ہیلو کہا تو وہی بیوروکریٹ جو چند پل سیکنڈ پہلے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے خوشامدانہ لہجے میں بولے سر میں کابینہ اجلاس کے بعد راہداری میں دو گھنٹے آپ کا انتظار کرتا رہا مگر آپ مصروف تھے تبھی آپ سے ملاقات نہ ھوسکی۔
اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں موجودہ بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ان کے رویے ایسے ہیں جیسے بادشاہ ھوں یہ وزیروں مشیروں اور سینیٹرز کو انگلیوں پر نچاتے ہیں اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دیکر انہیں رام رکھتے ہیں بیچارے وزیروں کو کیا پتہ کہ حقیقت کیا ہے۔
تحریک انصاف گوکہ عددی اعتبار سے کمزور حکومت ہے لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان تاریخ کے بہترین وزیراعظم اور نڈر سیاستدان ہیں یہ ستر سالہ گند ہے جس کو روائتی سیاستدان کسی صورت بھی صاف نہیں کرسکتے تھے مگر عمران خان صاحب یہ کرسکتے وہ اس منہ زور افسر شاہی کو قوم کا حقیقی خادم بناسکتے ہیں بس تھوڑی سختی کی ضرورت ہے گریڈ 16 سے لیکر 22 تک تمام افسران کے اثاثہ جات چیک کیے جائیں اور آمدن سے زائد اثاثہ جات والوں کے اثاثے منجمد کرکے قومی خزانے میں جمع کییجائیں کرپٹ بیوروکریسی کو تبدیل کرنے کی بجائے فارغ کیا جائے اور ان کیخلاف مقدمات بناکر انہیں سخت سزائیں دی جائیں۔
اس کے علاوہ ہر تحصیل اور ضلع میں مختلف مقامات پر کمپلین باکس رکھے جائیں اور عوام کو بذریعہ تشہیری مہم بتایا جائے کہ انتظامیہ کسی بھی افسر یا ممبر صوبائی و قومی اسمبلیز کے خلاف کوئی کمپلین ھوتو اس باکس میں ڈالیں وہ باکس ڈائریکٹ وزرائے اعلی اور وزیراعظم کے پاس جائیں جن کو کھول کر متعلقہ افسر یا ممبرز قومی و صوبائی اسمبلیز کے خلاف انکوائری کرائی جائے ان باکسیز کو کسی بھی شخص کو کھولنے کی اجازت نہ ھو جو جو بھی عوامی امنگوں پر پورا نہ اترے اسے فارغ کیا جائے اسمبلیز سے بھی اور نوکریوں سے بھی۔
اس طرح کرپٹ مافیا کو لگام پڑے گی اور ان میں ڈر پیدا ھوگا اور وہ عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان اس قوم پر احسان کرجائیں اور اس افسر شاہی کا قبلہ درست کرجائیں کیونکہ سیاستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں ملک ھمیشہ بیوروکریسی چلاتی ہے جب تک ایماندار افسران نہیں آئیں گے تب تک ملک ترقی نہیں کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں