بھارت میں پھیلنے والا کرونا وائرس،ماہرین کا نیا انکشاف

بیلجیئم (سی این پی)بھارت میں کرونا وائرس کی حالیہ تبدیل شدہ شکل نے خوفناک تباہی پھیلائی ہے اور اس کی وجہ سے خطے کے دوسرے ممالک بھی خوف کا شکار ہیں، حال ہی میں ایک پروفیسر نے اس تبدیل شدہ قسم کے بارے میں نیا انکشاف کیا ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق بیلجیئم کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ماہر حیاتیات ٹام وینسیلیرز نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی بھارتی قسم ممکنہ طور پر کرہ ارض پر سب سے زیادہ متعدی مرض کے طور پر تبدیل شدہ قسم ہے۔ٹام وینسیلیرز ہی وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وائرس کی برطانوی قسم دیگر اقسام کے مقابلے تیزی سے پھیلنے والی ہے، یہ دعویٰ پہلے متنازع تھا تاہم بعد میں اس کی دیگر ماہرین نے بھی تصدیق کردی تھی۔امریکی ریڈیو نیٹ ورک این پی آر کو دیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں سامنے آنے والی وائرس کی قسم میں ترسیل اور نمو کی بے پناہ صلاحیت ہے، یہ برطانوی وائرس کی طرح ہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں حال ہی میں ہونے والے بڑے اجتماعات، انتخابی ریلیوں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے نے ایندھن کا کام کیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ موسم سرما کے دوران بھارت میں صورتحال معمول پر آگئی تھی اور یومیہ کیسز کی تعداد ہموار ہوگئی تھی بلکہ اس میں کمی آرہی تھی۔تاہم فروری کے وسط اور مارچ کے ابتدا میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی اور وائرس کسی دھماکے کی طرح پھیلا اور اب بھارت وائرس کی خطرناک دوسری لہر کا سامنا کررہا ہے جس میں یومیہ 4 لاکھ سے زائد کیسز اور 4 ہزار سے زائد اموات رپورٹ ہورہی ہیں۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے ڈاکٹر روڈریکو نے ایس او پیز پر عملدر آمد میں کوتاہی پر زیادہ ملبہ بھارت پر ڈالا اور کہا کہ ہم نے دیکھا کہ لوگ اس طریقے سے عمل نہیں کر رہے جو کووڈ 19 کو سست کرنے کے لیے مناسب ہوتا اس لیے ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔دوسری جانب بھارت میں یونیسیف کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے یہی بات اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہی کہ اس عالمی وبا کے اثرات سے نکلنے کے لیے برسوں لگیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی اس کے خاص کر بچوں، غریبوں اور پسے ہوئے طبقات پر ثانوی اثرات دیکھ رہے ہیں۔ڈاکٹر یاسمین حق نے نشاندہی کی کہ بھارت میں صرف 50 فیصد بچوں کو آن لائن تعلیم تک رسائی حاصل ہے اس کا مطلب یہ کہ اسکول جانے والے 15 کروڑ بچوں کو رسائی میسر نہیں اور ہم چائلڈ لیبر، کم عمری کی شادی اور بچوں کی اسمگلنگ کی کہانیاں بھی سن رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ بھارت میں کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح 19 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے، بھارت میں انفیکشن کا وہی نمونہ ہے جو یورپ اور امریکا میں دیکھا گیا لیکن اس کی سطح مختلف ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گنجان آبادی بھی ایک پہلو ہے اور انفکیشن میں اضافے کی سطح کو رسپانس کی سطح سے ملانا مشکل عمل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں نیا مہلک اضافہ کووِڈ 19 کے خلاف عالمی سطح پر حاصل کیے گئے فوائد کو ختم کرسکتا ہے۔یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے تیار کی گئی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں انفیکشنز میں اضافہ ہو رہا ہے اور خطے کے 90 فیصد کیسز اور اموات بھارت میں رپورٹ ہورہے ہیں۔پاکستان کو بھی کووِڈ 19 کیسز میں اضافے کا سامنا ہے، حالیہ ہفتوں میں کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 7 روز تک یومیہ اوسطاً ساڑھے 5 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔اقوام متحدہ کے دفتر کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ عالمی وبا نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نظام صحت پر اثرات مرتب کیے ہیں جس میں اسپتالوں میں دستیاب بستر، آکسیجن اور دیگر اشیائے ضروریات کی کمی کا سامنا ہے۔یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا کا کہنا تھا کہ جو منظر جنوبی ایشیا میں ہم دیکھ رہے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، ہمیں اس حقیقی امکان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ ہمارا نظام صحت بیٹھنے کی نہج پر پہنچ جائے گا جس سے مزید جانوں کا ضیاع ہوگا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے کرونا کیسز میں 46 فیصد کیسز اور 25 فیصد اموات بھارت میں رپورٹ ہوئیں جبکہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔رپورٹ میں خاص کر نیپال کی صورتحال کو خطرناک قرار دیا گیا جہاں رواں ہفتے انفیکشن میں 137 فیصد اضافہ ہوا جو وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔
نیپال کی حکومت نے ملک کے مختلف مقامات پر لاک ڈاؤن لگا دیا تھا اور وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ڈومیسٹک پروازیں بھی معطل کردی تھیں۔یونیسیف کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں ویکسی نیشن کی بہت کم سطح بھی وائرس کے مزید قابو سے باہر ہوکر پھیل جانے کے امکان کو بڑھا دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں