برائے توجہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین!——–قادر خان یوسف زئی

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ مالی سال 2023میں معاشی ترقی 6فیصد ہوجائے گی اور معیشت میں روزگار اور پیداوار بڑھانے کے لئے عوامی اخراجات میں اضافہ کیا جائے گا ، ان کے مطابق مالی سال2022میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے900ارب روپے رکھے گئے ہیں ، جب کہ انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں پر اخراجات پر40فیصد اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن آئی ایم ایف کے مطابق معیشت 4فیصد تک بڑھے گی جب کہ ترقی میں اضافے کے لئے جی ڈی پی گروتھ کو کم ازکم 6سے سات فیصد لانا ہوگا۔ پاکستان میں معاشی صورت حال نازک دور سے گذررہا ہے ، کوئی مربوط اور جامع معاشی حکمت عملی نہیںجس سے تمام معیشت کے شعبے یکساں رفتار سے ترقی کرسکیں ۔حکومت نے معیشت میں بہتری کے نام پربار بار معاشی ٹیم میںتبدیلی کی، لیکن مجموعی شرح نمو میں کوئی اضافہ نظر نہیں آیا۔ کرونا وبا کی وجہ سے مستحکم مملکتوں کو شدیددبائو کا سامنا رہا ، جب کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے معاشی ترقی کے راستے کھلے ، لیکن پاکستان، کرونا کی خطرناک ترین صورت حال سے الحمد للہ بچنے کے باوجود کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔
مملکت میں جب امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں تھی اور ابتر صورت حال ، قتل و غارت ، دہشت گردی ، انتہا پسندی ، بالخصوص بھتہ خوری اور توانائی کے بحران میں مسلسل اضافے نے سرمایہ کاری کے دائرے کو سکیڑ دیا تھا تو سرمایہ دار عدم تحفظ کے باعث ترقی کے عمل سے مایوس ہو کر پنا سرمایہ محفوظ مقامات پر منتقل کررہا تھا ، جس کی وجہ سے جہاں صنعتی ترقی متاثر ہوئی بلکہ کاروباری سرگرمیاں بھی زوال پزیر ہوئیں ، اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی عشروں سے مملکت کی معاشی شہ رگ کراچی میں کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگی ، اس کے باوجود اراضی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اورصنعت کاروں کا رخ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی جانب ہے، طرفہ تماشا یہ کہ زرعی شعبہ بھی بُری طرح متاثر ہوا او ر جو زرعی اجناس و ضروریات برآمد کی جاتی تھی ، ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے درآمد کی جانے لگی ، مافیا ز نے لالچ کے تحت کسان کو اس نہج پر پہنچایا کہ عوام کی پہنچ سے بنیادی ضرورت کی اشیا ء باہر ہوگئیں ، زرعی شعبہ اگر زوال پذیر ہے تو اس میں کسانوں سے زیادہ قصور ایسے منصوبہ سازوں کا رہا جنہوں نے زرعی شعبے کو جدید بنانے کی کوشش نہیں کی ،اگر زر عی شعبے پر توجہ دی جاتی تو آج ملک خوراک میں خود کفیل ہوتا ، لیکن بدقسمتی سے پاکستان زرعی اجناس درآمدکرنے لگا ، حد تو یہ ہے کہ سبزیاں تک ہمسایہ ممالک سے درآمد کی جانے لگی ، زرعی شعبے کی ضروریات و ترجیحات کو مد نظر رکھ کر زرعی پالیسی تشکیل نہ دینے کا رجحان آج بھی ہے ،زرعی زمینیں ہائوسنگ اسکیموں میں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں ۔
بلاشبہ پاکستان میں ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں ، اس کا قدرتی محل و قوع تجارتی ترقی کے لحاظ سے انتہا ئی اہم ہیں ،خوش قسمتی سے پاکستان دنیا کے بڑی صارفین کی بڑی منڈیوں اور ابھرتی اقتصادی طاقتوں کے درمیان واقع ہونے کے باعث تجارتی میدان میں خوشحالی کے وسیع مواقع رکھتا ہے ، چین ، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک رسائی کو موثر بنا کر اربوں ڈالر کے تجاتی فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان اپنی ضروریات سے سو گنا زیادہ اشیا ء برآمد کرتا ہے ، جس میں قریباََ95فیصد اشیا سمگل ہو کر پاکستان واپس آجاتی ہیں یا پھر افغانستان داخلے سے قبل ہی اتار لی جاتی ہیں۔بدعنوان کرپٹ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپو ں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکائوٹ با اثر جاگیردار ، کرپٹ سیاست دان، وڈیرے ، خوانین ، قبائلی سردار ،ذخیرہ اندوز ، ٹیکس چور صنعت کار بھی ہیں جو سیلز ٹیکس چوری کرتے ہیں انکم ٹیکس سرے سے ادا ہی نہیں کرتے ، اداروں میں کھربوں روپوں کی کرپشن حکومتی پالیسیوں کی بروقت تکمیل کی راہ میں بڑی رکائوٹ ہے۔
شوکت ترین مملکت کی ابترمعاشی صورت حال کا بھیانک جائزہ ایک ٹی وی انٹرویو میں پیش کرچکے ہیں، لہذا موجودہ حالات میں ان کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں، انہیں یقینی طور پر معاشی ترقی کے لئے ہمہ گیر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، وفاقی وزیر خزانہ آگاہ ہیں کہ ملک کی اصل معاشی طاقت زراعت ہے، انہیں زرعی معیشت پر زیادہ توجہ دینا ہوگی ، کرونا وبا کی وجہ سے کئی برسوں تک، سیاحت کا شعبہ ملک کو درپیش بحران سے قطعی باہر نہیں نکال سکتا۔ جمود کا شکار صنعت کو بھی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ، جس کے لئے توانائی کا بحران کم اور پھر ختم کرنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا ، توانائی کے وسائل کی بڑھتی قیمتوں کا اثر براہ راست معیشت و عوام پر پڑتا ہے ، اس کی روک تھام کئے بغیر تمام اقدامات جز وقتی ہی ثابت ہوتے رہیں گے ، معیشت میں تیزی لانے کے لئے سمگلنگ کی روک تھام انتہائی ضروری ہے ، وہیں ٹیکس اکھٹا کرنے کے نظام میں روایتی و دانستہ پیدا کردہ خامیوں کو بھی دور کیا جانا ترجیحات ہونی چاہیے ۔ عام انتخابات کے بعد جو بھی حکومت کا تاج اپنے سر پر رکھتی ہے ، اسے سب سے پہلے معیشت کو بہتر کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ، محض سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار قائم رکھنا معیشت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
شوکت ترین کے معیشت کے حوالے سے بعض تجزیوں کو ان کی موجودہ حکومت کے سابق وزیر خزانہ جھٹلا چکے ہیں ، تاہم حکومت کی جانب سے خزانے کے وزرات کی چابی بار بار نئے ماہر معاشیات کو دینا بھی ایک غیر مقبول فیصلہ قرار دیا جاتا رہا ، کس بھی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے لانگ ٹرم پالیسیاں ختیار کرنا کی درست سمت ضروری خیا ل کی جاتی ہے ، ان حالات میں کہ منصوبہ ساز اپنے فیصلے کے مضمرات کو تبدیل کرسکیں ، وزرات ہی تبدیل کردی جاتی ہے ، موجودہ وزیر خزانہ کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ جادو کی چھڑی سے درپیش مسائل کو حل کرسکیں ، اس لئے انہیں جتنا بھی وقت میسر ہے ، اس کے لئے اپنے ترجیحات کو سرفہرست کرلیں ، بدترین معاشی بحران کے خاتمے کے لئے مسائل کی جڑ کو کاٹنا اہمیت کا حامل ہوگا ۔زرعی شعبہ کو ترجیح بنائے بغیر کم ازکم وقت میں مملکت بدترین معاشی صورت حال سے باہر نہیں نکل سکتی ، واحد زراعت کا شعبہ ہی بھنور میں پھنسی کشتی کو باہر نکال سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں