اللہ کی عادت—————-پروفیسر ڈاکٹررابعہ تبسم

قوموں کی اصلاح کی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ رسول و نبی بھیجے ہیں۔ مگر جب ان کی قوموںنے ان کی تکذیب کی تو پہلے تو اُن کو دنیا کے مصائب و تکالیف میں مبتلا کیا گیا یعنی فقر و فاقہ اور بیماری مسلط کی گئی تا کہ وہ اپنا رخ اللہ کی طرف پھیر دیں کیوںکہ انسان کو فطرةًمصیبت کے وقت ہی خدا یاد آتا ہے ۔ یہ ظاہری تکلیف و مصیبت در حقیقت اس رحمان و رحیم کی رحمت وعنایت ہوتی ہے۔یہ انسان کا پہلا امتحان ہوتا ہے اگر وہ اس میںناکام ہوتا ہے۔اور اللہ کی طرف رجوع نہیںہوتا تو دوسرا امتحان مال و دولت کی فراوانی اورصحت و تندرستی کی صورت میںلیا جاتا ہے۔ جس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مصیبت کے بعد راحت ودولت ملنے پر وہ شکر گزار ہوں اور اس طرح اللہ کی طرف رجوع ہوں۔ جب وہ اس میں بھی ناکام رہتے ہیں بلکہ مال و دولت ملنے پہ اور بھی بد مست ہو گئے عیش نشاط کو اپنااوڑھنا بچھونا بنا لیا اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں سے باہر نکلنے لگے تو اللہ کا غضب اُن پہ یوںنازل ہوا کہ آسمان سے پتھروںکا مینہ اس طرح برسا کہ اس پہ ہر نا فرمان کا نام لکھا ہوا تھا تو کہیںسات دن آٹھ راتیں آندھیاںچلتی رہیں ، کہیں زلزلے نے زمین کو اوپر نیچے کر دیا کہیں ایک چنگھاڑ نے کلیجے چیر دیئے سب نا فرمانوں کے نام و نشان مٹ گئے۔سورہ النحل میں اللہ تعالٰی فرماتا اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تو ہم ان پر ا سمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمارے بھیجے ہوئوں کو جھٹلایا تو ہم نے اُن کو اُن کے اعمال کے بدلے پکڑ لیا۔
آیئے قرآن کے اس آفاقی سچ کی روشنی میں آج کے حالات کا جائزہ لیں ،اپنے دل کے اندر جھانکیں اپنے اعمال کا جائزہ لیںکہ آج ساری دنیا پہ پڑی کرونا کی آفت کیا ہمارے رب کا بلاوہ نہیں!۔آج دنیا مادی ترقی کی بلندیوںکو چھونے کے باوجودایک ان دیکھے وائرس سے بے بس ہو چکی ہے ۔آیئے ا ستغفار اور شکر کے ذریعے اپنے اعمال کی د رستگی کر کے اپنے رب کی آغوشِ ر حمت میںپناہ لے لیں اس کی رحمت اپنا دامن پھیلائے ہمیں پکار رہی ہے۔تو کوئی ہے کہ سوچے اور سمجھے ؟؟؟؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں