نئی امریکی گیم کا پرانا مفروضہ اور پروپیگنڈا ؟………. قادرخان یوسف زئی

امریکہ اپنی پالیسی کے تحت اعلان پر عمل پیرا،افغانستان سے انخلا کا ٹائم فریم دے چکا، روس کا بنایا ہوا بگرام ائیر بیس جلد کابل انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا گو کہ ماضی کی روایات کے مطابق امریکہ جس ملک میں جاتا ہے، باآسانی اپنے انخلا کے مراحل کو مکمل نہیں کرتا اور کوئی نہ کوئی جواز موجودگی کا پیدا کرکے ماحول کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ پینٹاگون کی روایت رہی ہے کہ چاہے اُسے کتنا بھی نقصان ہورہا ہو، وہ اپنے مفادات کے حصول تک میدان کسی دیرینہ حریف کے لئے کھلا نہیں چھوڑتا۔ افغانستان کے خلاف جارحیت و پاکستان کو دھمکی دے کر لاجسٹک سہولیات حاصل کی گئیں تو اسے پہلے مذہبی جنگ قرار دیا پھر طے شدہ ایجنڈے کے تحت سلامتی کونسل کے ذریعے مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا،جو ہنوز جاری ہے۔سابق امریکی صدربارک اوباما افغانستان میں جنگ کو پیچیدہ عمل قرار دے چکے تھے اور ان کے لئے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اعلان بھی موثر ثابت نہیں ہوا۔ بلاشبہ افغانستان میں روس و امریکہ نے افغان سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دخل اندازی و جارحیت کی، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ افغان عوام کو غیر ملکی افواج کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں پہنچا،جتنا آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے ملا۔
اس وقت ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ایک مفروضے پر ”تندہی“ سے کام ہورہا ہے، جس میں اس ’خدشے‘ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی حتمی تاریخ دینے کے پیچھے بھی ایک ’سازش‘ ہے، جس کا مقصد افغانوں کے درمیان خانہ جنگی اور انتشار پیدا کرکے، چین، ایران اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے، جرمن میگزین DER SPIEGEL کا حوالہ بڑی شد مد سے دیا جارہا ہے کہ افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے زیر انتظام علاقوں پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے اور رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان اتنی شدت کے ساتھ جنگ ہورہی ہے جو کبھی افغانستان میں روس یا امریکہ کے ساتھ بھی نہیں ہوئی۔بعض تجزیہ نگاروں کو یہ قلق و صدمہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے با اثر وپاکستان مخالف عناصر کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے لہذا انہوں نے خصوصی طور پر ذرائع ابلاغ میں ایسا تاثر دیا کہ امریکہ، پاکستان میں فوجی اڈے میں براجمان ہوکر چین ، ایران اور افغانستان سمیت وسط ایشیائی ممالک بشمول روس پر خصوصی نظر رکھے گا۔ ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر افغان طالبان نے بھی بِنا تصدیق کئے پڑوسی ممالک کو تنبہہ کی کہ وہ ایسا اقدام نہ کریں ورنہ یہ تاریخی غلطی ہوگی۔ اس بیان میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا، لیکن غیر مبہم طور پر ایسے پاکستان سے جوڑ دیا گیا تاکہ افغان طالبان و پاکستان کے درمیان مثبت تعلقات کو خراب کیا جاسکے، جس کی بارہاکوششیں کی جا تی رہی ہیں۔
پاکستان صراحت کے ساتھ ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دے چکا ۔ واضح رہے کہ امریکہ کی واپسی کی کئی وجوہ پر سیر حاصل تجزیئے و امکانات ظاہر کئے جا چکے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جو شاید کئی برسوں تک تجزیہ نگاروں اور دفاعی امور سے وابستہ افراد کا موضوع رہے گا۔ تاہم اس اَمر پر ایسے تحفظات کا اظہار کہ امریکہ، افغانستان کے اندرونی معاملات میں اس لئے مداخلت نہیں کررہا تاکہ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی رہے اور پڑوسی ممالک تناؤ و دباؤ کا شکار رہیں، بالخصوص چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کیکئی تھیوریوں پر عالمی سیاست رکھنے والوں کی گہری نظر ہے، لہذا یہ کہنا کہ افغانستان۔ امریکہ و نیٹو کے مکمل و حتمی انخلا کے بعد بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگا تو شاید اس کا اندازہ لگانا،قبل ازوقت ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پر حسب روایت الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر متنازع بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، تحفظات ہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچتا رہے گا۔
پاکستان افغان طالبان پر ایک حد تک رسوخ ضرور رکھتا ہے، جس کی موجودہ وجہ لاکھوں افغان مہاجرین کو مکمل نقل و حرکت و کاروبار کی آزادی اور وہ تمام حقوق دینا ہے، جو کسی پاکستانی شہری کو حاصل ہیں، پاکستان نے افغان مہاجرین پر ایسی سخت گیر پالیسی کا طلاق نہیں کیا جو ایران، بنگلہ دیش سمیت مغرب و یورپی ممالک میں عاید ہیں، افغان طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ و نیٹو کے جانے کے بعد کابل انتظامیہ میں موجود ان کے مخالف جنگجو ایسا ماحول ضرور پیدا کریں گے جس سے ایک بار پھر افغان عوا م پاکستان آنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے، جو افغان مہاجرین کو پناہ دے گا۔ لہذا ماضی میں جو کچھ ہوا اور اس وقت جو افغانستان میں ہورہا ہے، اس سے عالمی برداری آگاہ ہے کہ امریکہ و نیٹو کی موجودگی کے باوجود جب افغان طالبان کو افغانستان کے 60فیصد سے زائد حصے پر قابض ہونے سے نہیں روکا جاسکا تو حاشیہ بردار کابل انتظامیہ کے لئے ممکن نہیں کہ وہ عالمی قوتوں کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بھاری مراعات کی لالچ میں بھرتی ہونے والوں ٹڈی دَل کو حقیقی جنگ میں لڑنے کے لئے ثابت قدم رکھ سکیں۔ امریکہ و مغربی ممالک اس زمینی حقیقت سے آگاہ ہیں کہ افغان طالبان اپنے ’نظرئیے‘کے تحت لڑتے ہیں اور دیگر صرف تنخواہ کے لئے۔
پاکستان ماضی کی بہ نسبت تمام پڑوسی ممالک سے مینڈیٹ کے مطابق بہتر روابط کی پالیسی پر گامزن ہے، یہ ریاست کی مثبت پالیسی ہے، گو کہ اس سے کچھ دیرینہ دوست ناراض بھی ہوئے لیکن انہیں ریاست کی مجبوریوں کا بھی بخوبی ادارک ہے،ریاست، افغانستان میں کسی ممکنہ خانہ جنگی کی روک تھام میں دہشت گردوں کو پاکستان آمد سے روکنے کے لئے پاک۔ افغان اور ایران بارڈر منجمنٹ کو پختہ و قابل عمل بنانا چاہتی ہے، اس عمل میں رکاؤٹ پیدا کرنے، جو بھی ہیں ان کا واحد مقصد ملک دشمن عناصر کے مذموم ایجنڈوں پر عمل کرنا ہے، امریکہ و نیٹوکا پڑوسی ملک سے انخلا خطے کے تمام ممالک کے مفاد ہے، غیر ملکیوں کو ماورائے قانون مراعات و سہولیات جس ملک نے دیں، وہ کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکا۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر ریاست کی گہری نظر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے نمٹنے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ نادان دوستوں کو بھی سمجھنا چاہیے، لایعنی و بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا ملک و قوم کے مفا د میں نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں