ماحولیاتی آلودگی……………شاہد اعوان

دنیاکے پر ہجوم شہروں کی ہوشربا ترقی نے ماحول میں آلودگی پیدا کر کے بڑے مسائل کو جنم دیا ہے جہاں ان شہروں میں قائم فیکٹریوں کا فضلہ کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے جس سے زہریلی گیسیں بن کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ اس آلودگی نے سمندروں، دریائوں، جھیلوں کے پانی کو آلودہ کیا ہے جن سے لوگ بری طرح متاثر ہونے لگے ہیں۔ مشینوں کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں نے بھی فضا میں بہت سی بیماریوں کو جنم دیا ہے یوں فضائی آلودگی سے قدرتی حسن تباہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ بھارت میں تاج محل جیسی خوبصورت عمارت کے حسن کو اس کے قریب قائم کیمیکل فیکٹری نے شدید متاثر کیا ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں نائٹروجن آکسائیڈ گیس شامل ہوتی ہے 1984ء میں بھارت کے شہر بھوپال میں کیڑے مارنے والی ادویات کا دھواں اور زہریلی گیس کے اخراج سے تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، اسی طرح کے حادثات امریکہ میں بھی ہوئے امریکی ریاست ورجینا میں کیمیکل فیکٹری سے زہریلی گیس کے خارج ہونے سے ایک سو افراد لقمہ اجل بن گئے۔ فضائی آلودگی سے آنکھوں اور پھیپھڑوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور بعض حالتوں میں کینسر جیسا موذی مرض بھی لاحق ہوجاتا ہے، زہریلی فضائی آلودگی سے قیمتی اور نایاب پرندے بھی ہلاک ہوئے اور بیشتر جنگلی حیات نایاب ہونے لگی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور اوزون کی تہہ میں خلا کے باعث ہماری زمین تک پہنچنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں فضا کو خطرناک حد تک گرم کر رہی ہیں جس سے دنیا کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے اگر یہی حالت رہی تو جانوروں اور پودوں کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ ہے جبکہ انسانوں میں جلد کا کینسر پھیل جانے کا امکان ہے اور اگر قطب جنوبی پر برف پگھلنی شروع ہو گئی تو یہ خوفناک سیلابوں اور طوفانوں کا سبب بن سکتا ہے۔ چند برس قبل اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پر انٹرنیشنل سیمینار میں اس امر کا خدشہ ظاہر کیا گیاتھا کہ اس سے ایشیا کے چند ممالک بے حد متاثر ہوں گے سمندروں میں پانی کی زیادتی سے سری لنکا اور کراچی پانی میں ڈوب سکتے ہیں اور بنگلہ دیش کا کچھ حصہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اس آلودگی میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، گندھک، کاربن مونو آکسائیڈ اور کلوروفلوروکاربن شامل ہیں زہریلی گیسوں کے سبب پھیپھڑوں کی سوزش، کالی کھانسی، نمونیا اور انفلوئنزہ جیسے خطرناک امراض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 80کروڑ افراد کو ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی غیر معمولی مقدار کا سامناہے۔
ْفضائی آلودگی کے علاوہ آواز ہمارے کانوں میں میکانی توانائی کی لہروں کی صورت میں داخل ہوتی ہے، آواز کی شدت کی پیمائش ‘ڈیسی مل’ کہلاتی ہے 90ڈیسی مل تک آوازیں نقصان دہ نہیں ہوتیں اس سے زیادہ شور سماعتوں کے لئے نقصان دہ ہے قریب سے زیادہ زوردار آواز قوتِ سماعت ختم کر سکتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے ایسے مریض کو آلہ سماعت استعمال کرنا پڑتا ہے۔ شہروں میں گاڑیوں کے پریشرہارن، جہازوں کی گھن گرج، میوزک کنسرٹ کی آوازیں 120ڈیسی مل تک پہنچ جاتی ہیں جو خطرے کا باعث ہیں یہ آوازیں بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لئے خطرناک ہیں، شور کے ماحول میں رہنے والے افراد ذہنی دبائو، تھکن، سانس کی تکلیف اور نیند کی کمی کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پانی کی آلودگی دو عالمی جنگوں کے دوران جرمنی میں دیکھنے میں آئی کہ جرمن لوگ عام نلکوں کا پانی نہیں پیتے بلکہ پینے کے لئے سادہ منرل واٹر یا لیمن واٹر استعمال کرتے ہیں، جرمن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اور جنگی اثرات ابھی تک جرمنی سے ختم نہیں ہوسکے۔ بعض ممالک میں پانی میں کلورین شامل کر دی جاتی ہے تاکہ زہریلے جراثیم مر جائیں۔ فضائی آلودگی سے تیراکی اور کشتی رانی سے وابستہ افراد بھی متاثر ہوتے ہیں غیرملکی مرد و خواتین عریاں لباس میں نہاتے ہیں ان کے جسموں سے مختلف بیماریوں کے جراثیم پانی میں شامل ہوجاتے ہیں عام طور پر پول میں نہانے کے بعد گرم پانی سے معیاری صابن کے ذریعے غسل کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں لوگوں کو آگاہی مہم کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے اخبارات، ٹیلی ویژن ، معلوماتی مواد، ریڈیو وغیرہ پر ماحولیاتی پروگرام ترتیب دئیے جائیں ٹی پروگرام رات8بجے نشر کیے جائیں انس پروگراموں میں بڑے سائز کے شاپنگ بیگز میں کوڑاکرکٹ مقررہ جگہوںپر پھینکتے ہوئے دکھایا جائے، نوجوانوں کو ماحولیاتی تعلیم دی جائے، آلودگی پر کنٹرول کرنے کے بارے میں ماہرین کے لکھے مضامین پر مبنی لٹریچر فراہم کیا جائے، علاقے میں فضائی آلودگی ختم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جائے، میونسپل کارپوریشن کے عملہ کو ہر علاقے سے روزانہ کوڑاکرکٹ اٹھانے کا پابند کیا جائے، محلہ کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنے علاقے میں صفائی کی خود نگرانی کریں یہ کمیٹیاں پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں میں یکساں طور پر تشکیل دی جائیں اور انہیں حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہو کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ہونے والی فضائی آلودگی کو ضلعی ایڈمنسٹریشن اور مقامی پولیس کے ذریعے رکوا سکیں۔ محکمہ ماحولیات کے افسران اور کارکن باری باری ہر علاقے میں جاکر لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات سے آگاہ کریں ہرماہ باقاعدگی سے آلودگی پر سیمینار منعقد کیے جائیں تاکہ آگاہی کا انتظام ہو سکے۔
5جون 2021ء کو ماحولیاتی آلودگی پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے اگر ہم اپنے علاقوں کے پہاڑوں جن میں اسلام آباد کی خوبصورتی کا باعث بننے والا مارگلہ پہاڑ نمایاں ہے جو ٹیکسلا کے نزدیک اب تقریبا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے کئی حکومتیں آئیں لیکن اس پہاڑ کو تحفظ دینے میںکسی کی دلچسپی نہیں رہی بلکہ بااثر سیاسی شخصیات نے کرش مافیا کی سرپرستی کی اور نتیجتا آج مارگلہ پہاڑ کی فلک شگاف چوٹیاں زمین بوس ہو چکی ہیں اور اب وہاں ہائوسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔ یہی مافیا حسن ابدال جیسے خوبصورت تاریخی شہر کے قدرتی حسن کو سبوتاژکرنے میں لگا ہوا ہے یہاں روحانی شہرت کی حامل باباولی قندھاری کی پہاڑی کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے اسی طرح پتھر گڑھ گائوں اور موٹروے ایم ون کے نواحی علاقوں کے سرسبز پہاڑوں کو بے دردی سے ختم کیا جا رہا ہے ان پہاڑوں کی ڈائنامائٹ کے ذریعے بلاسٹنگ کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہاں سے اٹھنے والے گرد کے طوفان ملحقہ آبادیوں کے رہائشیوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں جبکہ قدرتی حسن الگ تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ یقینا اس تباہی کی ذمہ داری محکمہ معدنیات اور ماحولیات کی وزارت پر آتی ہے کہ وہ ان عناصر کے سامنے ڈٹ جائیں، تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے سامنے بند باندھنے کے لئے اس وقت وفاقی وزیر ملک امین اسلم کی شکل میں ایک قابل شخصیت موجود ہے جو دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور حسن اتفاق ہے کہ یہ علاقے ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں بھی آتے ہیں گو کہ ملک امین اسلم پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے لئے سرگرم ہیں لیکن ان کی پہلی ترجیح ان کا اپنا ضلع ہونا چاہئے جہاں کے ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس جس کی صدارت وفاقی وزیر ماحولیات ملک امین اسلم کریں گے انہیں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ قدرتی ماحول کو تباہ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانونی چارہ جوئی کی جا ئے اور انہیں سزائیں دلوائی جائیں۔ آخر میں ہم وفاقی وزیر ملک امین اسلم سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے علاقے میں ہونے وا لے ماحولیات کی تباہی کے ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لائیں اس سے ناصرف اللہ کی خوشنودی حاصل ہو گی بلکہ انسانی اور جنگلی حیات کی بقا کو بھی ممکن بنایا جا سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں