بجٹ اور عوامی توقعات………… قادر خان یوسف زئی

وفاقی حکومت مالی سال 2021-2022 کا بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں ہے۔بجٹ کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارے کے علاوہ سرمایہ داروں و غریب عوام کو کچھ ریلیف دینے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ بجٹ میں عموماََ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جاتا ہے، جو موجودہ مہنگائی کے تناظر میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا لیکن سرکاری ملازمین تھوڑے کوبہت زیادہ جان کر قدرے ریلیف محسوس کرتے ہیں، لیکن ہمیشہ کی طرح پرائیوٹ سیکڑ کے ملازمین و محنت کشوں کے حالات قابل رحم ہوتے ہیں، انہیں غیر محفوظ ملازمتوں کے علاوہ کم تنخواہ و سوشل سیکورٹی کی سہولیات نہ ملنا المیہ ہے، پرائیوٹ سیکڑ کے ملازمین و محنت کشوں کے لئے مہنگائی کے اثرات پر قابو پانا دشوار ہوتا جارہا ہے کیونکہ جس گرانی کا سامنا سرکاری ملازمین کو ہے تو پرائیوٹ سیکڑ کے ملازمین کی ابتر صورت حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔مزدور کی کم ازکم تنخواہ کے اعلان میں معمولی اضافہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا موجب بنتا ہے اور روزانہ دہاڑی دار محنت کش اپنی کم ازکم تنخواہ طے کئے جانے پر یہی مطالبہ کرتا آیا ہے کہ بجٹ بنانے والے ان کے گھر کا’بجٹ بھی‘ اس کم ازکم اجرت پر بنا کر دے دیں تو وہ مطمئن ہوجائیں گے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کے علاوہ ریٹائرڈمنٹ پر پنشن ملتی ہے اور کچھ کوٹہ سسٹم جیسی ’نعمت‘ کی وجہ سے بعض سرکاری نوکریاں بھی مورثی بن جاتی ہیں۔
بجٹ کو عوام دوست بنانے کا دعویٰ ہر حکومت کرتی چلی آئی ہے، اس لئے اس ہر مرتبہ حکومت، اپنے بجٹ کی تعریف اور حزب اختلاف عوام دشمن قرار دے گی۔ متوسط طبقے کے لئے سالانہ بجٹ اب خوف کی علامت نہیں رہا، کیونکہ پورے برس کسی نہ کسی شکل میں اجناس و دیگر مصنوعات کی قیمتیں اس تیزی سے بڑھتی رہی ہیں کہ اب وہ بجٹ کی باریکیوں میں جانے کے لئے سر نہیں کھپاتے۔ ان کے لئے تو ہر صبح ایک نیا بجٹ لے کر آتی ہے، انہیں اب سالانہ بجٹ سے توقعات وابستہ کرنا، وقت کا ضیاع ہی لگتا ہے۔ کاروباری طبقے کے لئے مالیاتی بجٹ ہمیشہ خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے، انہیں غریب و متوسط طبقے کی طرح، چینی، مشروبا ت، ادویات اور اشیا ء ضروریہ کے سستے ہونے، ریلیف یا علاج معالجے کے اخراجات میں کمی سے سروکار نہیں ہوتا۔ چونکہ حکومت کا تعمیراتی وژن زوروں پر ہے اس لئے تعمیرات سے وابستہ سیمنٹ، ٹرک، بلڈورز، سریا، سستی لیبراور نقل حرکت میں لائے جانے والے میڑیل کے سستے ہونے کی خواہش زیادہ رہتی ہے۔ غریب و متوسط طبقے کے لئے اپنے گھر کی تعمیر و حصوؒ ل، کل بھی ایک خواب تھا اور آگے بھی نہ جانے کب اندھیروں میں اجالا ہوگا۔ توانائی کے شعبے میں سولر انرجی، مہنگی بجلی کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے، بھاری بلوں کے بوجھ تلے دبنے واے طبقات کو سولر انرجی کی جانب راغب کرنے کے لئے مصنوعات میں خصوصی ریلیف و سبسڈی کی ضرورت ہے، گیس کی قلت کا عفریت بھی عوام کو نگلنے کے لئے تیار ہی رہتا ہے، توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے اور بجٹ میں ترغیبات دینے سے حکومت و متوسط طبقے پر اضافی بوجھ میں بتدریج کمی واقع ہوسکتی ہے، تاہم عموماََ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا زیادہ فائدہ ایسے مافیا ز اٹھا لیتے ہیں، جو اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ توانائی میں قلت کی وجہ سے لوڈ منجمنٹ سے لوگ اب خائف ہوتے جا رہے ہیں،جب کہ صنعتی شعبہ میں بھی ترقی کا عمل سست روئی کا شکار ہوجاتا ہے جس کا بوجھ ایک بار پھر غریب و متوسط طبقے پر ہی پڑتا ہے۔
بجٹ خسارے ہر حکومت کی معاشی صورت حال میں مجبوری اس لئے بن جاتے ہیں کیونکہ آمدنی آٹھ آنے خرچا روپیہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی ملک کو چلانے کے لئے بھاری شرح سود پر قرضے لے کر وقتی ضروریات کو پورا کئے جانے کے اس طریقے کو مہذب دنیا میں مناسب نہیں سمجھا جاتا، اس لئے جب تک مستقل پالیسی و مڈٹرم ترجیحات کے اقدامات کو نہیں اپنایا جائے گا، کسی بھی مالی سال کے ترقیاتی اہداف پورے نہیں ہوپائیں گے۔ ملکی وغیر ملکی قرضوں اور امدادی رقوم پر انحصار کی پالیسی کو بھی اب تک ختم نہیں کیا جاسکا اور بدقسمتی سے ہر نئے دور حکومت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، اقتصادی لحاظ سے خود انحصاری کی طویل المدتی پالیسی کو اپنانا ہی سود مند فارمولا ہے۔ بروقت فیصلے کرکے حکومتی سطح پر مختلف شعبوں و وزراتوں میں غیر فعال ملازمین و محکموں کو ختم اور انہیں دیگروزارتوں میں کھپا کر افرادی قوت کی کمی اور مالی بوجھ بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف چند ہزارافراد ہی ٹیکس دیتے ہیں، ٹیکس سسٹم کے دائرے کو بڑھانے کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، نئے ٹیکس لگانے سے زیادہ بہتر مخفی ٹیکس چوروں کو ٹیکس نظام میں شامل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پوش علاقوں میں بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والے، لگژری گاڑیاں استعمال کرنے والے، بنک بیلنس اور قیمتی اثاثوں کے مالک، جب چاہتے ہیں بیرون ملک سفر کرتے ہیں،ٹیکس چوری کرکے اپنی آمدن سے ایک پیسہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے، آمدن سے زیادہ اثاثے صرف سیاست دانوں کے نہیں، بلکہ اُن لاکھوں ٹیکس چوروں کے بھی ہیں جو حکومت سے مراعات بھی حاصل کرتے ہیں اور حکومتی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بجائے مافیاز کے آلہ کار بننے کو ترجیح زیادہ دیتے ہیں۔حکومت سنجیدگی کے ساتھ ایسے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرے تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا۔
ملک کے مالی حالات اُسی وقت درست ہوں گے، جب بڑے بڑے جاگیر داروں، وڈیروں،سرداروں، خوانین، مَلکوں اور ٹیکس چور صنعت کاروں کو ٹیکس نیٹ میں لاکر غریب اور متوسط طبقے کے اوپر سے ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جائے۔عام آدمی تو روزمرہ استعمال کی عام سی چیز پر بھی قبل از وقت ٹیکس دیتا ہے بلکہ بعض اشیاء پر تو اس سے ایک سے زیادہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ متمول و امیر طبقہ اس ملک کو کیا دیتا ہے ؟یہ کوئی انصاف نہیں کہ ماہانہ لاکھوں کروڑوں کمانے والے تو ملکی ترقی میں کوئی کردار ادا نہ کریں اور پہلے سے مشکلات کا شکار غریب آدمی سے ٹیکس لے لے کر اس کی زندگی اجیرن بنا دی جائے اور ان سے براہ راست کے ساتھ ساتھ بالواسطہ ٹیکس بھی وصول کئے جائیں۔بہتر ہوگا کہ عوام کو سال بھر کے منی بجٹوں سے نجاتملدلائی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں