بدحالی اور گمراہی سے نکلنے کاطریقہ………پروفیسر ڈاکٹر رابعہ تبسم

سورہ یونس آیت نمبر57 میں فرمایا “اے لوگو! تمہارے پاس آئی ہے نصیحت تمہارے رب سے اور شفا دلوں کیروگ کی اور رحمت مسلمانوں کے واسطے۔”
اللہ نے آسمان و زمین کی تمام نعمتوں سے افضل دو ایسی نعمتیں انسان کو عطا کی ہیں کہ انکو اپنا کے انسان، انسانِ کامل بن جاتا ہے وہ ہیں قرآن اور سنتِ رسولۖ۔جب انسان صحیح معنی کامل ہو جائے تو سارا جہاں درست ہو جائے اور یہ دنیا بھی جنت بن جائے۔ اس آیت میں قرآن کی چار خوبیاں بیان کی گئی ہیں یعنی وعظ، شفا، ہدایت اور رحمت ۔
قرآنِ کریم میں وعظ کا ایک ایسا حسیں انداز پیش کیاگیا ہے جس سے انسان کا دل نرم ہوتا اور اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے یعنی وعدہ کے ساتھ وعید،عذاب کے ساتھ ثواب دنیا وآخرت میں کامیابی کے ساتھ ناکامی و گمراہی کا تذکرہ قرانِ کریم کا ایسااعجازِ بیان ہے جو دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔ اور ساتھ ہی جب یہ کہا جاتا ہے” تمہارے رب کی طرف سے”تو یہ قرآنی وعظ کی حیثیت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے کہ یہ نفع و نقصان عذاب و ثواب کسی عام انسان کی طرف سے نہیں بلکہ ربِ کریم کی طرف سے ہے جس میں کسی غلطی کا اِمکان نہیں۔موعظہ کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے۔قرآن کریم ان اعمال کی اصلاح کابہترین زریعہ ہے۔
قرآن کی دوسری صفت دلوں کے روگ یعنی تکبر، حسد ، کینہ، بخیلی، چغلی ،بدگمانی، غصہ، غیبت وغیرہ کے لئے شفا ہے ، بعض علما قرآن کو صرف قلبی بیماریوں کے لئے شفا اور علاج قرار دیتے ہیں اوربعض قلبی اور جسمانی دونوں کے لئے ،اگر دیکھا جائے تو جسمانی بیماریاں بھی دراصل روحانی بیماریوں کاہی شاخصانہ ہوتی ہیں ۔جیسا کہ ایک اور مضمون ” غصہ کا علاج “میں ہم نے قرآن پاک سے رہنمائی لی تھی۔روایت میں ہے کہ ایک شخص نبی پاکۖ کے پاس آیا اور عرض کی کہ میرے سینے میں درد ہے ۔ آپ نے فرمایا قرآن پڑھا کرو کیونکہ حق تعالی کا ارشاد ہے قرآن شفا ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک اور شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میرے حلق میں تکلیف ہے آپ نے اس کو بھی یہی فرمایا قرآن پڑھا کرو۔
علمائے امت نے کچھ روایات اور کچھ اپنے تجربوں سے آیاتِ قرآنی خواص و فوائد مستقل کتابوں میں جمع کر دیئے ہیں۔ جیسا کہ امامِ غزالی کی کتاب “خواصِ قرآنی”مگر یاد رہے کہ قرآن کا اصل مقصداس کی ہدایات پر عمل درآمد پہ ہے ۔جیسا علامہ اقبال نے کہا ” تم نے قرآن کی سورہ یسین سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کیا کہ اس کے پڑھنے سے موت آسان ہو جائے ، حالانکہ اس سورت کے معانی اور حقائق ومعارف میں غور کرتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد و برکات حاصل کر سکتے تھے۔
تیسری صفت ھدی کے معنی ہدایت یعنی رہنمائی کے ہیں ، قرآن کریم انسان کو طریقِ حق و یقین کی طرف دعوتِ حق دیتا ہے ، اور انسان کو بتلاتا ہے کہ آفاقِ عالم اور خود ان کے نفوس میں اللہ تعالی نے جو اپنی عظیم نشانیاں رکھی ہیں، ان میں غور وفکر کرو تا کہ تم ان سب چیزوں کے
خالق و مالک کو پہچان سکو۔
اور چوتھی صفت رحمت سے مراد ہے کہ لوگوں کو چاہیئے کہ صرف اللہ کے فضل و رحمت کو ہی اصلی خوشی کی چیز سمجھیں دنیا کے چند روزہ مال ومتاع اور راحت و عزت در حقیقت خوش ہونے کی چیز ہی نہیں،کیونکہ اول تو وہ کتنی ہی زیادہ کسی کو حاصل ہو ادھوری ہی ہوتی ہے دوسرے ہر وقت اس کے زوال کا خطرہ رہتا ہے ، اس لئے اللہ کا فصل و رحمت ان تما م سے بہتر ہے۔ رسول؛ۖے فرمایا اللہ کے فصل سے مراد قرآن ہے اور رحمت سے مراد یہ کہ تم کو قرآن پڑھنے او ر عمل کرنے کی توفیق بخشی۔اور یہی دراصل وہ طریقہ ہے جو انسان کو بدحالی اور گمراہی سے خوشحالی اور روشنی کی طرف لیجاتا ہے آیئے اس راستے پہ قرآن کے ہمراہ ہو جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں