پولیس میں ستائشی کلچر کو رواج دیں!………………………… شاہد اعوان

کسی بھی معاشرے میں پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ حکومتی گاڑی کا نہ جدا ہونے والا وہ پرزہ ہے جس کے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔ مگر ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ احساس رواج پا چکا ہے کہ پولیس کے بغیر معاشرہ زیادہ پرسکون رہ سکتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس یوں ہے کہ ہم نے معاشرے کو پولیس کے وجود کے بغیر دیکھا ہی نہیں اس لئے یہ احساس عام ہے۔ معاشرے میں پولیس کاکردار جامع بھی ہے اور اہم بھی، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نفرتوں کو جوان ہونے اور اعتماد کے ٹوٹنے میں بہت عرصہ لگا ہے اور اب اس اعتماد کو واپس لانے کے لئے ایک طویل مسافت درکار ہے۔ دراصل ہر محکمہ اپنے معاشرے ہی کی عکاسی کرتا ہے پولیس والے بھی گوشت پوست کے بنے انسان ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں کی طرح گھر، فیملی، بچے، رشتہ دار اور دیگر ضروریات رکھتے ہیں جن کے کام کے لئے اچھا اخلاق اور عمدہ کارکردگی بھی دکھانا ہوتی ہے ان سب باتوں کے لئے بعض اوقات وسائل کی کمی پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ سڑک پر کھڑے سپاہی کو جون جولائی کی شدید ترین دھوپ میں ڈیوٹی دیتے ہوئے ذرا دیکھیں جہاں ہمیں چند سیکنڈ کے لئے اشارے پر رکنا بھی قیامت لگتا ہے تو یہ فرق خود بخود اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو کچھ وقت نکال کر پولیس کے اداروں کا مشاہدہ کر لیجئے اس سے پتہ چلتا ہے جن کے اپنے حقوق غصب ہیں وہ کیسے کسی دوسرے کے حقوق کی پاسداری کریں! ان کی تنخواہ کا حساب لگائیے اور پھر ڈیوٹی کے اوقات کا تعین کیجئے مکان کا کرایہ، پٹرول، سکول اور ڈاکٹروں کی فیسیں، سماجی تقریبات، روزمرہ کے اخراجات، ٹرانسپورٹ کے کرایے دیکھیں تو آپ کو ہر طرف پریشانیاں ہی پریشانیاں بال کھولے نظر آئیں گی۔۔۔۔ کیا منہ زور دور میں ان کے حقوق غصب نہیں ہورہے؟؟؟ فقیر پولیس کا نہ تو وکیل ہے نہ تنخواہ دار لیکن وہ بھی ہمیں میں سے ہیں ہمارے اپنے ہیں وہ بھی کسی کے بیٹے، کسی کے باپ، کسی کے بھتیجے بھانجے ہیں۔ ہم ایک عام معاشرتی انسان کی بات کرتے ہیں جس کی مجبوریاں بھی ہوں اور اس کو روکنے کے لئے اس کے اندر بیریئر بھی اتنے مضبوط نہیں اور یوں پولیس میں اختیارات کی موجودگی، گزر اوقات کے لئے تنخواہوں کا ناکافی ہونا کرپشن اور بدتمیزی کو جنم دیتا ہے جن ممالک میں یہ عدم توازن قائم ہے وہاں ایسی تمام بیماریاں موجود ہونا فطری امر ہے ۔
ہماری بات طول پکڑ رہی ہے یہاں ہم نے پولیس کے چند نوجوان پولیس افسران کا تذکرہ کرنا ہے جنہوں نے مذکورہ مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھائیں اور اسی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر آئی جی پنجاب انعام غنی کی جانب سے صوبے کے تمام اضلاع میں ایس ایچ اوز کی کارکردگی اور پروفیشنل ازم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ضلع میں تین بہترین ایس ایچ اوز کا انتخاب کر کے انہیں تعریفی اسناد اور نقد انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ایس ایچ اوز اپنی ڈیوٹی مزید محنت اور جانفشانی سے سرانجام دے کر عوام کی خدمت بہتر انداز میں کر سکیں گے ۔ اس ضمن میں ضلع اٹک میں بہترین قرار پانے والے جن تین ایس ایچ اوز کو اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر یہ اعزاز نصیب ہوا ان میں سب انسپکٹر گلفراز احمد( اٹک خورد)، سب انسپکٹر نیاز احمد (صدر حسن ابدال) اور سب انسپکٹر حامد کاظمی (فتح جنگ) شامل ہیں۔ نوجوان ہنس مکھ ترجمان اٹک پولیس طاہر اقبال خان نے جب یہ خبر فقیر کو بھیجی تو ہم نے سوچا کہ صوبہ بھر میں کسی ضلع کے تین SHOکو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ بہترین موقع ہے مذکورہ افسران میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے کا یہ جذبہ یونہی بیدار نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے ایک ہمدرد اور بہادر قیادت کا ہونا ہے جس کو دیکھ کر نوجوان افسران کچھ بھی کر گزرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ راولپنڈی ڈویژن کے جواں سال آر پی او عمران احمر نے اپنی تعیناتی کے بعد ڈویژن میں نئے اور انوکھے اسلوب متعارف کرائے ہیں جس سے پولیس کی عملی کارکردگی کو نکھارنے میں مدد ملی ہے ۔ جبکہ اٹک پولیس کے ضلعی کمانڈنٹ سید خالد ہمدانی جیسے درویش صفت آفیسر کی ٹیم میں ان کا عکس ضرور نظر آتا ہے، اسی طرح نہایت فعال خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی بھی اپنے افسران کے ساتھ رابطوں میں رہ کر کام میں مصروف نظر آتی ہیں، ایس ڈی پی او راجہ فیاض الحق کیانی بھی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک پولیس افسر ہیں۔ یقینا ایسے ضلعی سربراہان کی قیادت میں پولیس ایک ٹیم ورک کے طور پر نیک نیتی سے کام کرے تو ایسے اعزازات کا ملنا کچھ اجنبھے کی بات نہیں۔
پولیس کے کام کو سمجھنے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ پولیس کا پورا نظام قانونی طور پر’ مہتمم تھانہ’ کے گرد گھومتا ہے دوسرے الفاظ میں SHOتھانے کا ”چہرہ” ہوتا ہے اگر کوئی پولیس آفیسر جو مہتمم تھانہ کے ماتحت ہو تو اس کی تفتیش کی آخری یا حتمی ضمنی بھی SHOنے لکھنی ہوتی ہے اس کی تربیت اور مشق ”متلوں” سے لے کر چالان کی تکمیل، گواہان کے بیانات، فرد مقوضگی، پرچہ اطلاعی، چالان ضمنی جیسے سینکڑوں کام آفیسر مذکورہ نے کرنے ہوتے ہیں۔ ماتحت افسران کی جانچ اس صورت میں ممکن ہوتی ہے جب وہ خود کام میں مہارت رکھتا ہو، یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جرم کا سراغ اس کی تفتیش، شواہد اکٹھے کرنا اور پھر اسے پیشہ وارانہ طریقے سے عدالتوں کے سامنے پیش کرنا جرائم کی بیخ کنی کے لئے ناصرف ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر معاشرے میں انصاف اور امن قائم ہونا ناممکن ہے۔ FIRسے لے کر ملزمان کی گرفتاری، گواہوں کے بیانات، شہادتوں کا حصول اور تکنیکی طور پر انہیں تیار کرنا اور پھر عدالت میں سماعت کے لئے پیش کرنا SHOکی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ مکمل مقدمہ تیار کرنا گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں کا کام ہے پھر اس میں تکنیکی سقموں کو دور کرنا تاکہ کیس مضبوط ہو اور ملزم کو اس کے کیے کی سزا ملے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مکمل یکسوئی اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ کیس کو تیار کیا جائے افسوس کہ اتنا وقت SHOکے پاس نہیں ہوتا۔ عام لوگوں کے سامنے پولیس کے اس عملی کام کی نہ کوئی پہچان ہے نہ ہی پذیرائی یہی وجہ یہ کہ عوام پولیس کے بارے میں ہمیشہ منفی رائے قائم کر لیتی ہے جبکہ دوسری جانب عدالتیں بھی پولیس کے مقدموں کی جراحی کرتی ہیں جس سے گاہے گاہے پولیس کے بارے میں عدالتوں کی منفی رائے بھی پڑھنے کو ملتی رہتی ہے۔ مذکورہ بالا عوامل کے باوجود چند پولیس افسران کی کارکردگی ناصرف حوصلہ افزا ہے بلکہ قابلِ صدتحسین ہے۔ آئی جی پنجاب انعام غنی ایک زیرک پولیس آفیسر ہیں انہوںنے تھانوں کے درمیان صحت مندانہ مقابلوں کا آغاز کیا ہے یہ ناصرف جرائم کے خاتمے کے لئے کارگر اور مفید ہو گا بلکہ نوجوان افسران میں مقابلے کی فضا بھی پیدا ہو گی اور پنجاب پولیس کی کارکردگی کا معیار بلند سے بلند تر ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں