بلوچستان کی وزیراعظم سے وابستہ امیدیں !——-قادر خان یوسف زئی

بلوچستان پاکستان کا دل ہے، لیکن اس زخمی دل کے علاج کے لئے مختلف حکومتوں کے صرف دعوی ہی سامنے آتے رہے ہیں، مسائل و عالمی سازشوں کا ایک ایسا گڑھ ہے جس نے عوام میں بے یقینی و احساس محرومی میں روز بروز اضافہ ہی کیا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جب اکتوبر، 2018میں بلوچستان کا پہلادورہ کیا تھا تو مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ”سیاسی جماعتیں صرف ووٹ لینے بلوچستان آتی ہیں، لیکن ہم کام کریں گے۔“ لیکن بدقسمتی سے جس طرح نئے پاکستان کے خواب عوام کو دکھائے گئے تھے اسی طرح کے خوشنما سیراب کو بلوچستان میں دکھایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادی صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کتنا کامیاب ہوسکے یا کس قدر پیش رفت ہوئی، بدقسمتی ہے کہ اس سے کم و بیش سب ہی آگاہ ہیں، بلوچستان میں وجود نہ رکھنے والی تحریک انصاف نے اتحادیوں کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنوائی ، جس نے عوام میں مایوسی کی سونامی میں اضافہ ہی کیا۔ انہیں بلوچستان کے اُن دیرینہ مسائل کے حل کی جانب توجہ مرکوز کرانا مقصود ہے کہ بلوچستان میں عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسائل ہوں، یا پھر بین کرتی ماؤں بہنوں کی آہ و زایاں، ان میں کمی واقع نہیں ہوئی ۔ آج بھی اِن کے نوحے سینے میں دل کو چاک کرتے ہیں۔
وزیرعظم نے ناراض بلوچوں کو مفاہمت یا رضامند کرنے کے لئے ایک متنازع شخصیت کو ذمے داریاں بھی سونپیں، لیکن اب تک کی پیش رفت سے شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ بلوچستا ن کی سب سے غیر مقبول شخصیت ہیں جو ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے مناسب خیال نہیں کی جاتی۔ وزیر اعظم نے اپریل2021کے ایک دورے میں بھی بلوچستان کے پیکچ کے لئے کچھ ’اعلانات‘ کئے تھے، لیکن انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آسمان سے خلائی مخوق نہیں اترے گی بلکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ گذشتہ دنوں ایک انتہائی افسوس ناک واقعے میں اے این پی کے سینئر رہنما عبید اللہ کاسی کو26جون کو تاوان کے لئے کچلاک سے اغوا کیا گیا، چپے چپے پر موجود سیکورٹی فورسز تمام تر ’کوششوں‘ کے باوجود انہیں بازیاب نہ کراسکی، لیکن کلیجہ اُس وقت منہ پر آگیا جب ان کی سوختہ اور انتہائی تشدد زدہ بے آسرا لاش 5اگست کو پشین کے علاقے سرانان سے ملی۔پولیس ترجمان کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور اُن پانچوں افراد کو ایک کاروائی میں ہلاک کردیا، جو کاسی کے اغوا میں موجود تھے، لیکن قانون اپنی اس گرفت کو پہلے مربوط کردیتا تو شائد عبید اللہ کاسی بھی ہمارے درمیان موجود ہوتے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اے این پی بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔اسد خان اچکزئی کو 20 ستمبر 2020 کو چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے ایئرپورٹ روڈ پولیس کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔پانچ ماہ بعد ان کی لاش کوئٹہ کے علاقے نوحصار میں ایک کنویں سے برآمد کی گئی تھی۔ اسد خان اچکزئی کے اغوا اور قتل کے الزام میں لیویز فورس کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا تھا۔عبید اللہ کاسی اے این پی کے دوسرے سیاسی رہنما کی شہادت تھی جو وزیراعظم پاکستان کے دورے کی آمد سے قبل ہوئی۔عمران خان کو اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بلوچستان میں ووٹ کے لئے نہیں آتے، بلکہ بلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمے اور ان کے مسائل کے حل کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس میں اگر کوئی رکاؤٹیں تو قوم کو اس سے آگاہ کریں، قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھ کر بلوچستا ن کے مسئلے کا کب تک سرخ فیتے کی نظر ہوتا رہے گا، اس وقت وطن عزیز جہاں ہائی برڈ وار کا شکار ہے تو دوسری جانب شمالی مغربی و مشرقی صوبے کی سرحدوں ملک دشمن عناصر کی سازشوں میں بھی گھیرا ہوا ہے، اس سازشوں کا ناکام بنانے کے لئے عوام کو اعتماد د میں لانا اور ثابت کرنا ہوگا کہ بلوچستا ن آج بھی ان کی پہلی ترجیح ہے، بلوچستان کے وسائل و قدرتی انمول خزانے غریب اور محروم طبقات کی فلاح کے لئے ہیں، انہیں ان پر خرچ کرنا چاہیے، وفاق کو صوبائی خود مختاری کے بعد صوبوں میں پھیلنے والی بے چینی و سیاسی خلفشار کو دور کرنے کے لئے ایک ایسی موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس پر تمام سیاسی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں اوع عوام کا مکمل اتفاق ہو۔افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورت حال کا بڑا اثر بلوچستان پر پڑے گا، اور اس امر سے ہم سب آگاہ ہیں کہ بلوچستا ن کو سیاسی و سماجی طور پر مخصوص طبقوں کے حوالے کرنے سے آنے والے وقتوں میں دشواریوں اور مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وفاق اس امر کا ادراک کررہا ہو کہ بلوچستان آنے والے مہینوں میں ایک بہت بڑی آزمائش سے گذرنے والا ہے، جسے ڈنڈے نہیں بلکہ صرف عوام کی مدد سے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی معاشی تقدیر بدلنے کا عظیم منصوبہ ہے، لیکن اس کے ثمرات سے جب تک بلوچستان کے عوام مستفید نہیں ہوں گے اس پر شکوک و شبہات عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اٹھائے جاتے رہیں گے۔ گوادر کا 1.2ملین گیلن واٹر پارجیکٹ کامنصوبہ ہویا صوبہ بلوچستان کیلئے سولر جنریٹر گرانٹ یا پھر نارتھ فری زون، جنوبی بلوچستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے میں ٹرانسمیشن لائنز یا گوادر میں 300میگا واٹ کا پاور پراجیکٹ یاپھر31پانی کے ڈیموں کی تکمیل کے منصوبے اور دیگر دعوے، انہیں وقت پر مکمل کرنا بلکہ جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر اس کے ثمرات عوام تک پہنچانا، ریاست کی بنیادی ذمے داری اور فرائض میں شامل ہیں۔پاکستان کے دل بلوچستان کو احساس محرومی کے اُس دلدل سے باہر نکالنے کے لئے اپنی پوری قوت بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افراد ہوں یا پھر سیاسی و سماجی مسائل کا حل، قانون کی بالا دستی ہو یا حکومتی رٹ کو قائم کرنا، عام عوام کے لئے بلوچستان کے تاریخی امیج دینا ریاست کا پہلا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ کے موقع پر جس طرح حزب اختلاف نے احتجاج کیا تھا، ان پر میرٹ کی بنیاد پر توجہ دینا بلوچستان حکومت کا کام ہے بلوچستان کے زمینی حقائق کے مطابق اپنے عمل سے مثبت بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ملک، قوم اور بلوچستان کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں