کورونا وباء کے کشمیری صحافیوں پر اثرات——– ظفر مغل

2019ء میں چائینہ سے شروع ہونے والی ہلاکت خیز کورونا وباء نے اب تک جہاں پوری دنیا کے شعبہ جا ت کوبری طرح متاثر کیاہے وہیں میرپور میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی بھی اس وبا ء سے محفوظ نہیں رہے۔زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کی نسبت صحافیوں کو اس وباء سے لڑنے کیلئے میرپو ر اورمظفرآبادمیں حکومتی سطح پرکسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔میرپور میں درجن بھر صحافی کورونا وبا سے متاثر ہو کر سیلف آئسولیشن اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپورمیں کورونا پازٹیو آنے پرزیر علاج رہے اور یہ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی متاثرہ صحافی اس وبائی مرض کا شکار ہو کر جاں بحق نہیں ہوا۔ متاثر ہونے والے صحافیوں کیلئے صحافتی تنظیموں یاصحافیوں کے لئے حکومتی سطح پراسمبلی ایکٹ کے تحت قائم آزادجموں کشمیر پریس فاؤنڈیشن اور حکومت آزادکشمیر نے کوئی ایسے قابل ذکر اقدام نہیں اٹھائے جن کی وجہ سے صحافتی کمیونٹی کو کوئی بڑا ریلیف ملا ہو لہذا اس اہم شعبہ سے وابستہ کارکنان گذشتہ دو سالوں سے عملاََسخت عدم تحفظ کا شکارچلے آرہے ہیں۔البتہ یہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ کورونا وباء کی رپورٹنگ کے دوران آغاز سے اب تک آزادکشمیر میں ایسا کوئی قابل ذکر واقعہ سامنے نہیں آیا کہ صحافیوں کو دھمکیاں ملی ہوں یا انہیں حقائق سامنے لانے سے روکا گیا ہو۔ میرپور میں کورونا وباء کے باعث صحافیوں کو معاشی مشکلات کا شدت سے سامنا رہا ہے جبکہ حکومتی یا انتظامی سطع پر صحافتی کارکنان کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے تجویز کردہ ایس او پیز کے تحت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے جس سے ریاست کے چوتھے ستون سے وابستہ صحافتی کارکنوں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی جس کے باعث پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافتی کارکنوں نے قومی مفاد میں بے سر و سامانی کے عالم میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے فرائض منصبی فرنٹ لائن سولجر کے طور پر بھرپور طریقے سے انجام دیئے۔آزادکشمیر میں کورونا وباء کے نتیجہ میں نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) سے جاری شدہ ہدایات کی روشنی میں وفتاََ فوقتاََ ہونے والے لاک ڈاون اورسمارٹ لاک ڈاؤن ہونے کے باعث میرپور کے صحافیوں کا اشتہارات کا بزنس بھی نہ ہونے کی وجہ سے اس کمیونٹی سے وابستہ کارکن صحافی مالی طور پر مشکلات کاشکار رہے جبکہ پاکستان کی نسبت میرپور سمیت آزادکشمیر بھرمیں صحافیوں کوصحافتی اداروں سے نکالنے کا کوئی واقعہ تاحال سامنے نہیں آیا۔چونکہ میرپور اور مظفرآبادکے بیشتر صحافتی اداروں کے مالکان کی طرف سے صحافیوں کو تنخواہ کم او راشتہارات کی کمیشن کے طور پر ہی زیادہ تر رکھا جاتا ہے جس سے میرپور اور مظفرآبادکی سطع پر صحافیوں کی تنخواہوں پرتو کوئی اثر نہیں پڑا لبتہ صحافی مالی طورپر مشکلات کا شکار رہے علاوہ ازیں میرپورکے بیشتر صحافی سفید پوش ہونے کی وجہ سے کورونا وباء کے دوران معاشی طورپر مزید متاثر ہوئے۔ اگر اعدادوشمار کی بات کی جائے تو میرپور میں کشمیر پریس کلب کے 99ممبران میں سے تقریباً90 فیصد صحافی اس وباء کے باعث معاشی سطح پرانتہائی کمزور ہو چکے ہیں اسلئے کورونا وباء کی موجودہ غیر یقینی صورتحال اور اس وباء کی چوتھی لہر کے خطرے کے پیشِ نظرآزاد کشمیر میں نومنتخب شدہ حکومت کو چاہیے کے وہ ریاست کے چوتھے ستون سے وابستہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے کارکنان کو بھی دیگر کئی شعبوں کی طرح فرنٹ لائن سولجر قرار دیتے ہوئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طے شدہ ایس اور پیز کے مطابق ضروری سہولیات مہیا کرے اور صحافتی شعبہ کے لئے فی الفورخصوصی معاشی پیکج کا اعلان بھی کیا جانا چاہئے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اور آزادانہ طور پر اپنے فرائض منصبی مزید بہتر سے بہتر انداز میں انجام دے سکیں اور اسکے نتیجے میں کورونا وباء کی چوتھی لہر کے دوران وہ قیمتی انسانی جانوں کے بچاؤ کے لیے اپنے مثبت کردار کی ادائیگی احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔اسی طرح آزاد کشمیر کی سطع پر صحافیوں کی فلاح و بہبود کے نا م پر قائم ہونے والی آزاد جموں و کشمیر پریس فاؤنڈیشن(جس کے چیئرمین آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس صداقت حسین راجہ ہیں) کو بھی چاہئے کہ وہ صحافیوں کی فلاح و بہبود کے وسیع تر مفاد کی خاطرکورونا وباء کے دوران کارکن صحافیوں کو معاشی طور پر ریلیف دینے میں عملی طورپر اپنا کلیدی کردارادا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں