انتخابی عمل کے لئے فرشتے کہاں سے لائیں ! ……………. قادر خان یوسف زئی

الیکشن کمیشن نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں 37 اعتراضات پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرادیئے۔ چونکہ الیکشن کمیشن خودمختار اور آئینی ادارہ ہے، دستور میں حاصل اختیارات کے تحت ان کے اعتراضات پر ریاستی توجہ ناگزیز ہے۔ بادیئ النظرمیں الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں، لیکن جو اعتراضات اٹھائے، وہ قابل غور ہیں، حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے موقف پر قائم ہیں کہ انتخابی اصلاحات اور آئین سازی کے لئے حکومت کو پارلیمان سے رجوع کرنا چاہے تھا، حالاں کہ یہ سلسلہ قریباََ گذشتہ دس برسوں سے شٹل کاک بنا ہوا ہے، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ادوارِ حکومت میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کچھ کام کرتی رہیں، الیکٹرونک الیکشن مشین بھی بنائی گئی جس پر سنگین تحفظات سامنے آنے پر سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا، میں ذاتی طو پرکہہ سکتا ہوں کہ پی پی پی نے سپورٹ نہیں کیا تو ن لیگ کو، اب پی ٹی آئی کو دونوں جماعتیں سپورٹ نہیں کررہیں، اپنے اپنے دور میں حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے کسی بھی وجوہ پر عدالتی، احتسابی اور انتخابی اصلاحات کے لئے سنجیدگی سے آئین سازی کی کوشش نہیں کی، ممکن ہے کہ یہ عمل آگے بھی جاری رہے۔
موجودہ حکومت صدارتی آرڈنینس کے ذریعے اگر قانون لاتی ہے تو بھی الیکشن کمیشن اور قانون کی تشریح و انصاف فراہم کرنے والے ادارے آئین کے برخلاف کوئی غیر آئینی حکم صادر نہیں کرسکتے، مثلاََ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں بالخصوص ایم کیو ایم پاکستان کے لئے یہ فیصلہ بہت کٹھن ہوگا کہ اپنے مخصوص طرز طریقہ سے ہٹ کر تحفظات و تنازعات سے بھرے اس انتظامی حکم پر سر تسلیم خم کرلیں کیونکہ سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ جس طرح ان کے ہاتھ سے مبینہ طور پر آر ٹی ایس،،آر ایم ایس کی وجہ سے نکلا، اگر متنازع مجوزہ ای وی ایم آگیا تو رہی سہی نشستیں بھی شاید ملنے کا امکان نہ ہو۔ یہ ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک مخصوص لسانی طبقے کے چیدہ چیدہ احباب کا نقطہ نظر جاننے کے بعد اندازہ ہوا کہ متحدہ کو پہلے ہی پی ٹی آئی کے اتحادی بننے کے باوجود ان تین برسوں میں ماسوائے وزرات کے ایساکچھ نہیں کرسکی جس سے اپنے خالص ووٹرز کی مطمئنکرسکتی، ان کی برداشت یا مفاہمت کے پیچھے بھی گنجلگ مجبوریاں ہیں،جس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔
2018 کے انتخابات میں آر ایم ایس اور آر ٹی ایس اگر ٹھیک ٹھاک رہتا او ر جس طرح کے دعویٰ کئے گئے، اُسی طرح عمل درآمد ہوتا تو شائد ای وی ایم پر اعتراضات کم ہوتے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو قابل اعتماد سمجھا ہی نہیں جاتا، راقم کی عقل اُس وقت دنگ رہ جاتی ہے کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سٹم ہیک نہیں کیا جاسکتا، تو دنیا کی کون سی ایسی مشین ہے جو بغیر کسی سسٹم (پروگرامنگ) کے نہیں چلتی، اگر ہم سافٹ وئیر کو یہ سمجھتے ہیں کہ الگ سے انسٹال ہوگا تو انتہائی ناقابل فہم ہے، کسی بھی کمپیوٹر کو چلانے کے لئے جو ونڈو انسٹال کی جاتی ہے، وہ تو خود ہی ایک پروگرام ہے۔ کیا کسی پروگرام کے بغیر کوئی بھی مشین کام کرسکتی ہے،تو جواب یقینا نفی میں ملے گا، اسی طرح مشینوں میں انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا نہ ہو، لاکھوں مشینوں میں سے چند ہزار مشینوں کے پروگراموں میں تبدیلی خارج از امکان نہیں پولنگ ایجنٹ کوئی سافٹ وئیر انجینئر تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دس گھنٹے کے دورانیہ میں سیل شدہ مشین میں طے پروگرامنگ کو سمجھ سکے، خاص کر دیہی یا پہاڑی علاقوں میں۔ یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ انتخابات میں قریباََ کسی بھی سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹس، بالخصوص خواتین میسر نہیں ہوتی کہ ان کوہر بوتھ میں بیٹھایا جاسکے، لہذا پولنگ اسٹیشنوں کے اندر گھوسٹ بوتھ کا ہونا انہونی نہیں،سچ کہا کہ جب وزیراعظم کا فون ہیک ہوسکتا ہے تو ای وی ایم کوئی کیوں ہیک نہیں کرسکتا۔
الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ 150ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہی گی، یہ حکومت کے لئے اہم سوالیہ نشان ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کروانے والے اداروں پر اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن کے پاس اپنا انتخابی عملہ نہیں، سیاسی جماعتیں دراصل مبہم لفظوں میں یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ انتخابی سامان ریاستی اداروں کے پاس ہوتا ہے اس لئے ریاست میں شامل بعض عناصر کی مداخلت خارج از امکان نہیں، دوم الیکشن میں کلیدی کردار ریٹرننگ افسران کا ہوتا ہے جو ماتحت عدالت سے تعلق رکھتے ہیں، بدقسمتی سے نظام انصاف میں اصلاحات نہ ہونے اور کرپشن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اس لئے آر اوز پر اورتمام سیاسی جماعتوں کا پریزائڈنگ افسران و عملے پراعتماد کامل نہیں، سوم: الیکشن پروسیس کے لئے نچلی سطح کا متعین عملہ سیاسی سطح پر بھرتی شدہ ہوتا ہے، ان کی سیاسی وابستگیوں نے ٹرن آوٹ 98 فیصد تک بڑھانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ فرشتے کہاں سے لائیں جو شفاف و صاف انتخابات کا انعقاد کراسکیں، کیونکہ ان کے نزدیک ریاست کے بعض ا عناصر قابلعتماد نہیں زیادہ تر آر اوز، پی اوزقابل بھروسہ نہیں، کمشنری نظام پر یقین کرنا بھوسے کو گندم سمجھنے کے مترادف ہے، سیاسی بھرتیوں کے کارکنان سے غیر جانب داری کی توقع عبث ہے۔
الیکشن کمیشن پر بھی بارہا قریباََ ہر جماعت نے عدم اعتماد ظاہر اور دفاتر کے باہر مظاہرے بھی کئے، اس لئے فی الوقت ای وی ایم پر بحث کرنے کے بجائے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پہلے اداروں پر سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔ دوم ایسا طریق کارمتفقہ طور پر لایا جائے جس سے پارلیمان میں بیٹھی اور ایوان کا حصہ نہ بننے والی جماعتیں بھی مطمئن ہوں کیونکہ جمہوری نظام میں اکثر وہی جماعت کامیاب ہوتی ہیں جن کی مخالف جماعتیں اجتماعی طور اُن سے زیادہ ووٹ لیتی ہیں لیکن منقسم ہونے کی وجہ سے ایوان کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ اس مرحلے پر تکینکی طور پر ای وی ایم کی سنگین خامیوں پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے، جب تک وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہیں جاتا، اس کے بعد ہی فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ معاملہ حساس اور ملک کے مستقبل کا ہے، عوامی نمائندوں، ایوان سے باہر سیاسی جماعتوں اور سب سے اہم الیکشن کمیشن کی حتمی و متفقہ رائے نہ ہونے تک چپ رہیں تو یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں