کورونا وبا اور پر عزم لڑکیاں………….. سمیرا لطیف

آئیے میں آپ کو ملواتی ہوں خیبرپختونخوا کے دور افتادہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک باہمت کھلاڑی راحما صاحبزادی سے، جس نے کورونا وائرس وبا کے دور میں بھی ثابت قدمی سے قومی کھیلوں کے دوران تائیکو انڈو میں گولڈ میڈل جیت کر یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی اور لگن کے لیے صرف سہولیات اور آسائشیں ہونا ضروری نہیں، کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کا تعلق ایسے علاقوں سے ہو جہاں سہولیات دستیاب ہوں بلکہ پاکستان کے ہر گوشے اور ہر کونے میں لگن اور ذہانت موجود ہے- راحما صاحبزادی کی کہانی سن کر میں بہت زیادہ متاثر ہوئی کیونکہ اس نے ایک ایسے گھٹن بھرے معاشرے میں جنم لیا جہاں لڑکیوں سے ان کی شادی کے بارے میں رائے تک نہیں لی جاتی، جہاں لڑکیوں کو گھروں کی چار دیواری تک محدود رکھا جاتا ہے اور لڑکیاں محرم کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں تک رکھ سکتیں، اس گھٹن زدہ معاشرے کی تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے راحما نے ٹائیکوانڈو کھیل میں قدم رکھا اور اپنے حوصلے اور ذہانت سے بہت کم وقت میں یکے بعد دیگرے اعزازات حاصل کرکے صنفی مساوات کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا۔
راحما کو ابھی معاشرے میں صنفی مساوات کا ہی چیلنج درپیش تھا کہ اچانک عالمی وبا کورونا راحما کی راہ میں رکاوٹ بننے چلی آئی۔ کورونا وائرس وبا کی آمد سے پہلے راحما روزانہ ٹائیکوانڈو اکیڈمی جاتی اور ٹریننگ کرتی۔ اس وقت اسے صرف معاشرے کی تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب وہ کورونا کے اعصاب شکن حالات سے بھی نمٹ رہی تھی۔ کورونا وائرس کے دوران روئے زمین پر زندگی کی آمد و رفت اور نقل و حرکت مکمل بند اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور راحما کی اکیڈمی بھی بند ہوگئی جس سے وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ ایک پیشہ ور کھلاڑی ہونے کے ناطے جسمانی فٹنس برقرار رکھنا راحما کی اولین ترجیح ہے۔
تائیکو انڈو اکیڈمی بند ہونے کے ساتھ ساتھ جم اور پبلک پارکس بھی بند ہوگئے جبکہ چند ماہ بعد راحما کا قومی سطح پر تائیکوانڈو مقابلہ ہونے جا رہا تھا اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ لاک ڈائون مزید کتنا عرصہ چلے گا اور روزمرہ زندگی کو واپس معمول پر لوٹنے میں کتنا عرصہ لگے گا تاکہ وہ اپنے مقابلے کے لیے تیاریاں دوبارہ شروع کر پائے۔ راحما ان سب حالات سے متاثر ضرور ہوئی لیکن مایوس نہیں۔
راحما نے مجھے بتایا کہ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ میں اپنی ٹریننگ گھر پرجاری رکھوں۔ اس نے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کیا جنہوں نے اسے بھرپور اعتماد دیا اور کہا کہ بیٹا تمہارے اس فیصلے پر تمہیں ہماری طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے جو ہر صورت برقرار رہے گی، راحما نے اپنے گھر پر ٹریننگ کا آغاز کر دیا، اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اکیڈمی جیسی سہولیات اور سازو سامان کی عدم موجودگی میں اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ورزشیں بھی بغیر کوچ کے کرنا پڑیں۔ اس کے والد نے اسے بازار سے ٹریننگ کا بنیادی سامان اور کٹ لا کر دی جس سے اسے ورزش اور ٹریننگ کرنے میں کافی آسانی ہوئی۔ ٹریننگ کے مقصد کے لیے اس کے والد راحما کے حریف تک بنے۔ راحما نے بتایا کہ میری ورزش اور تیاری کے لئے نظام الاوقات بھی میرے والد نے بنایا جس کے مطابق میں دن کے صرف چار سے پانچ گھنٹے ٹریننگ کرتی اور بقیہ وقت اپنے روزمرہ کے کاموں کو دیتی تاکہ میں کسی دبائو سے محفوظ رہوں اور میرا ذہنی سکون بھی بحال رہے،راحما نے بتایا کہ والدہ میری خوراک کا خاص خیال رکھتیں۔ صبح کے ناشتے میں وہ مجھے پانچ ابلے ہوئے انڈے، دیسی گھی سے بنے ہوئے پراٹھے شہد کے ساتھ دیتیں، دن میں تین مرتبہ یعنی کہ صبح ،دوپہر، رات دودھ میں بادام پیس کر دیتیں اور خصوصا ٹریننگ کے دوران توانائی بڑھانے والا پائوڈر یعنی سپلیمنٹ بھی پلاتیں تاکہ میری توانائی بحال رہے اور میں آسانی سے اپنی ٹریننگ پر دھیان دے سکوں۔
میرے والدین نے مجھے ورزش اور ٹریننگ کے لئے گھر کا ایک ایسا الگ کونا دیا جہاں زیادہ شور شرابہ نہ ہو اور میں پرامن ماحول میں تیاری کر پاں۔ لاک ڈائون کے دوران اپنی مشق جاری رکھنا میرے لئے ہرگز آسان نہ تھا یہ سب میرے والدین کے تعاون، دعائوں اور میرے حوصلے سے ممکن ہوا۔ لیکن اس تمام عرصے کے دوران مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ میرا اصل حریف میدان میں موجود نہیں بلکہ کرونا وائرس کی وبا تھی جس کے آگے میں نے ہار نہیں ماننی کیونکہ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ “خواتین کورونا وائرس کی وبا سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں”۔
بالآخر مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد کورونا اور میدان میں اپنے حریفوں کو شکست دیتے ہوئے راحما نے قومی سطح پر گولڈ میڈل اپنے نام کرلیا۔ گولڈ میڈل چیمپئن بننے کے بعد راحما سے میری بات ہوئی تو وہ مجھے مزید پراعتماد دکھائی دے رہی تھی اس نے اپنے علاقے کی بچیوں کے لیے یہ خصوصی پیغام دیا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو مواقع میسر نہیں ہوتے۔ وہ خواب دیکھ تو سکتی ہیں مگر انہیں پورا کرنے کے لئے صرف اپنے خواب نہیں بلکہ گھر والوں کی عزت اور معاشرے کی امیدوں کا بوجھ بھی کمر پر لاد کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔لیکن حالات چاہے کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ہمیں ان کے سامنے ہار نہیں ماننی اور اپنے خواب پورے کرنے ہیں۔ جس طرح میں نے اپنا خواب پورا کیا اسی طرح دوسری لڑکیاں بھی اپنے خواب پورے کر سکتی ہیں۔ اور والدین کو اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی بیٹیوں کو بیٹوں سے زیادہ ان کی توجہ کی ضرورت ہے۔ زیادہ نہیں مگر برابر توجہ ضرور دیں۔
یہ یقینا بہت خوشی کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا کے دور افتادہ گائوں جو کہ قبائلی علاقوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہاں سے اتنی باہمت بچی نے جنم لیا اور اپنے حوصلے سے نہ صرف کورونا کے خلاف جنگ کی بلکہ صنفی امتیاز کے خلاف بھی کھڑی ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ خیبرپختونخوا کی بیٹیاں ہر مشکل، ہر وبا اور ہر اس ناانصافی اور زیادتی جو کہ خواتین کے حقوق کو سلب کرے، کو شکست دے سکتی ہیں۔
میں تو راحما صاحبزادی سے متاثر ہوئی اور یقینا آپ بھی ہوئے ہوں گے اور ہمیں فخر ہے ایسی بچیوں پر جو کورونا کی وبا سے لے کر خواتین کے حقوق تک جنگ کے لئے آخری دم تک تیار ہیں۔
(یہ مضمون اکائونٹیبلٹی لیب کے کرونا وائرس سوایکٹس مہم کا حصہ ہے، اکائونٹیبلٹی لیب کا مضمون نگار کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں)

اپنا تبصرہ بھیجیں