کالعدم ٹی ٹی پی سے بار بار مذاکرات ؟ ۔۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

ملکی سا لمیت کے وسیع تر داخلی اور خارجی تناظر میں انتہائی ہولناک اور افسوس ناک سانحات پر سنجیدہ غور وفکر متقاضی ہے کہ عوام کے تحفظات و تشویش کو دور کرنے کے لئے ریاستی حکمت عملی کو واضح کیا جائے۔ شدت پسندوں کیہتھیار ڈالنے پر معافی کے اعلان اور کالعدم تنظیموں سے مذاکرات کی خبروں سے ایک بے یقینی پائی جا رہی ہے، اس پر عوام،سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے خدشات سامنے آئے ہیں کیونکہ عوام (پارلیمنٹ) کو اعتماد میں لئے بغیر ایک بار پھر وہی عمل دوہرایا جارہا ہے جس کے نتائج ماضی میں توقعات کے برخلاف نکلے اور ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوسکا لیکن جب بھی ایسے علاقوں میں فوجی آپریشن کیا گیا تو بیشترسیاسی جماعتوں کی تائید اور مکمل حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں مسلح افواج نے شدت پسندی کے خلاف بے رحم آپریشنز کئے، آپریشن کامیاب بھی ہوئے اور کالعدم تنظیمو ں کے سرکردہ شدت پسند جنگجو افغانستان فرار ہوگئے اور افغان سرزمین مملکت کے خلاف استعمال کئے جانے سے ناقابل جانی و مالی نقصان کا سلسلہ نہ رک سکا۔
وزراعظم عمران خان نے ترک نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کچھ ٹی ٹی پی گروپس سے، افغان طالبان کے تعاون سے مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق’حکومت جانتی ہے کہ کون اچھے ہیں اور کون بُرے، اس لئے مذاکرات کئے جا رہے ہیں‘ لیکن وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ’ٹی ٹی پی سے افغانستان یا پاکستان میں کوئی خفیہ مذاکرات نہیں کئے جا رہے‘۔ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کا متضادبیانیہ ہی دراصل عوام میں تحفظات کا سبب بنا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ’ وہ حکومت کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حق میں نہیں، معاملے پر بحث کے لئے ایوان کا اجلاس بلایا جائے۔‘ واضح رہے کہ ماضی میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل میں کوشش کی گئی تھی کہ وہ غیر مسلح ہوجائیں اور مذاکرات کے نتیجے میں بعض گروپس کے مطالبات بھی تسلیم کئے گئے۔ 2004 میں سب سے پہلے مذاکرات نیک محمد گروپ سے کئے لیکن چند مہینوں بعد ہی معاہدہ ختم ہوگیا۔2006 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سے معاہدہ بھی ناکام رہا،2008 اور2009 میں ٹی ٹی پی سوات کے ملا فضل اللہ سے معاہدہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔2014 میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ غور طلب پہلو ہے کہ ٹی ٹی پی سے قیام امن کے لئے اُس وقت کی سیاسی حکومتوں نے ہی مذاکرات کئے، پی ایم ایل ن، پی پی پی اور اے این پی کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ان کے مطالبات بھی مانے لیکن کالعدم تنظیم نے غیر مسلح ہونے کے بجائے خود کو مزید منظم اور مضبوط کیا اور عوام کے لئے شدیدتکالیف کا سبب بنے۔
پی ٹی آئی اس بار افغان طالبان کے تعاون سے جن گروپس سے مذاکرات کررہی ہے ان کے نام تو ظاہر نہیں کئے گئے لیکن ذرائع کے مطابق یہ وہ گروپس ہیں جو منظم و مستحکم نہیں رہے اور شدت پسندی کے ان گنت واقعات میں انہوں نے براہ راست کسی دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری بھی قبول نہیں کی۔کالعدم ٹی ٹی پی،پاکستان میں بدترین شدت پسند کاروائیوں میں ملوث رہی اور افغانستان میں داعش خراساں کے ساتھ، اتحادی بننے کے بعد شمال مغربی علاقوں میں مسلح افواج کے خلاف مسلح کاروائیاں کرتے اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرتے رہے۔ افغان طالبان تو کہہ چکے کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاک۔ افغان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی لیکن پاک۔ایران سرحد اور افغان۔ ایران سرحد کو ابھی تک محفوظ نہیں بنایا جاسکا اس لئے آئے روز دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ مسلح افواج کے خلاف رونما ہوتا رہتا ہے۔ شدت پسندی کو جڑ سے ختم کرنے میں شاید کئی برس لگ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں شد ت پسند مختلف بہروپ میں نہ پائے جاتے ہوں، لہذا اس ضمن میں یہ تصو ر کرنا کہ بھارت جیسے ملک کے ہوتے ہوئے اور اس کے پھیلائے ہوئے زہر سے افغانستان میں اثر ختم ہوچکا تو یہ ہماری غلط فہمی ہوگی کیونکہ ناسور کا علاج کرنا بڑا کٹھن اور وقت طلب کام ہے۔
قریباََ ہر متشدد جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے افغانستان کی جیتی جاگتی مثال موجود ہے، اس سے قبل ایران و عراق کے درمیان برسوں کی جنگ کا خاتمہ بھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہوا توپاک۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگیں بھی مذاکراتی میز پر ہی ختم ہوئیں، بدتر حالات کے تناظر میں اگر کوئی ایسی یقین دہانی عوام (پارلیمنٹ) کو مطمئن کرسکتی ہے کہ مسلح گروپ، ہتھیار ڈالنے کے بعد نارمل زندگی بسر کرنے لگیں تو ماضی کے تجربات اچھے نہیں رہے، تاہم اگر ہم یہ سوچ رکھتے ہیں کہ افغان طالبان انہیں روک دیں گے تو یہ بھی دشوار گذار مرحلہ ہوگا کیونکہ ٹی ٹی پی کے جو مطالبات ہیں وہی افغان طالبان کے رہے ہیں، اس لئے ممکن نظر نہیں آتا کہ شدت پسندوں کے ساتھ، قربانیوں دینے والے عوام گلے لگنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں گے۔
مسلح افواج نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن بلیک ٹھنڈر سٹورم، آپریشن خیبر، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ حق، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کیا،جس کے نتیجے میں مملکت میں بڑے پیمانے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ورنہ اس سے قبل عوامی مقامات، مساجد، بارگاہوں، مزارات اور سرکاری املاک سمیت حساس و مرکزی فوجی مراکز کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا جس کو سیکورٹی فورسز نے قربانیوں کے بعد روکا۔ ریاستی ادارے اس امر کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کاروائیاں کریں لیکن حکومت کی رٹ کیوں کمزور نظر آرہی ہے اس پر غور کی ضرورت ہے، کیونکہ گروپس خود کو منظم کرنے کے لئے مذاکرات کے نام پر مہلت چاہ رہے ہیں تاکہ ماضی کی طرح وہ فائدہ اٹھاکر ایک بار پھر ریاست کو چیلنج کریں اور ملک بھر میں بے خوف پھیل جائیں۔ عوامی تحفظات کو دور کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جو انہیں پارلیمان کی کھلی بحث میں حصہ لے کر دور کرناچاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں