الوداع ڈاکٹر عبد القدیر خان ______حفصہ اکبر علی

کس منہ سے اور کس قلم سے میں اس ہستی کے بارے میں لکھوں جسے پورا پاکستان جانتا ہے مانتا ہے وہ جس کے مقروض سب پاکستانی ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ ہے۔
وہ جس کے احسان کے بدلے وزارت عظمی کی کرسی صدارت کی کرسی بھی چھوٹی ہے۔وہ جس نے پوری قوم کو صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھایا اور نیوکلیئر ایٹمی دنیا میں اپنا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔
کس کو پتہ تھا 1 اپریل 1936 کو بھوپال میں پیدا ہونے والا بچہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی آزادی اور سالمیت کو دوام بخشے گا۔
ڈیلف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ایم ایس اور کیتھولک یونیورسٹی آف لویین سے ڈاکٹریٹ کیا۔لیکن جب ملک کو اس کے علم کی ضرورت پڑی تو اس مرد میدان نے لبیک کا نعرہ لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بات مانی ۔ فروٹ کے کریٹ میں خفیہ طور پر پاکستان پہنچنے اور پھر چاغی جیسے گرم ترین علاقے میں سرنگوں میں بیٹھ کر کام کیا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ( ساتھی سائنس دان) کا چہرہ دھوپ سے جھلس گیا۔ 28 مئی 1998 کو بدست نواز شریف نیوکلیئر ٹیسٹ کر کے اہل و کفار کے دلوں کو دہلا دیا۔
امت مسلمہ کا ہر با شعور فرد فرط جذبات میں اللّٰہ اکبر پکار اٹھا اور اس دن کو یوم تکبیرکے نام سے منایا جانے لگا۔
یہ ڈاکٹر عبد القدیر خان ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کی ہمت بندھائی اور ذوالفقار علی بھٹو کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ علامہ خادم رضوی نے عبد القدیر صاحب کے ہاتھ چوم کر یہ حدیث بیان کی کہ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تیر بنائے وہ جنتی، جو تیر اٹھا کر دے وہ جنتی جو تیر چلائے وہ بھی جنتی۔” تو جو اللہ کا شیر ایٹم بم بنائے وہ کیوں نا جنتی ہو؟ جس جرأت سے رضوی صاحب نے ان کے حق میں بولا اور کسی کا جگرہ نہیں۔
مشرف نے ان پہ ایٹمی راز افشاں کرنے اور دشمن کو بیچنے کا جھوٹا الزام لگاکر طرح طرح کی سختیاں اور قید و بند کا ظلم ڈھایا۔ جب انھوں نے اعتراف کرلیا تو جھوٹی معافی کا ڈھونگ رچا کر رہا کر دیا۔ لیکن خانوں کے خان اپنا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ لے کر گئے۔ جس میں ان کا نظر بند کیا جانا غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا گیا۔ لیکن زمین کے خداؤں نے رحم نا کھایا اور انہیں آزاد آدمی کی حیثیت سے جینے نہیں دیا۔
عمر بھر سنگ دلی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
وہ کسی ایوارڑ یا کرسی کے محتاج نہیں تھے۔ ہمیشہ سادہ زندگی گزاری مگر ریاست سے تنگیوں اور مصیبتوں کا شکوہ رہا۔
ان سب کے باوجود حسن مزاح میں مشتاق یوسفی لگے۔ وسیم بادامی نے فون کیا! سر میں بادامی بول رہا ہوں۔ جواب دیا! وعلیکم السلام میں خوبانی بول رہا ہوں۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان کے ملک برادری سے تھا۔ جو کوئی بہت زیادہ رائل کاسٹ نہیں مگر انہوں نے محنت سے نام کمایا اور دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کیا۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں بطور مہمان خصوصی آ ئے
تقریر کرنے ڈائس پر آئے تو ڈائس پر بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ فرمانے لگے میں نے ساری زندگی بموں میں گزاری یے میں نہیں ڈرتا کسی گولی یا بم سے یہ شیشہ ہٹادیں۔
جب بھی وطن کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے یہ گردن ہماری گئی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے میرے ہم نشیں
یہ ملک ہمارا ہے تمہارا نہیں۔
تین صدارتی ایورڈ ملے مگر اقبال کے شاہین کو ستائش دنیا متاثر نہیں کرتی۔ جتنا ان کا اقبال اور رومی سے روحانی تعلق تھا۔ وہ مرد مومن، مرد قلندر، مرد حر کی اصل تصویر تھے۔
جس نے نا مکمل تکمیل آزادی کو مکمل کیا اور اس مملکت خداداد کو ہمیشہ کے لئے نا قابل تسخیر کر دیا۔ الوداع عظیم سائنسدان
الوداع محسن پاکستان
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں