غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور پانی چوروں کے کنکشن …… قادر خان یوسف زئی

بعض جماعتوں کے رہنماؤں نے متعدد بار پانی کی عدم فراہمی اور واٹر مافیا کے خلاف آواز اٹھائی اور ارباب اختیار کو متنبہ بھی کیا کہ مستقبل میں پانی کی منصفانہ فراہمی کو یقینی نہ بنایا گیا تو علاقوں میں لسانی بنیادوں پر خانہ جنگی کا احتمال ہے۔ خیال رہے کہ 2015میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سابق ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ کراچی میں غیر قانونی ہتھکنڈوں سے بہت بڑی رقم(230ارب ٌ سالانہ ہتھیائے جاتے ہیں اور اس عمل میں (مبینہ طور پر بعض) سیاسی جماعتیں، سٹی گورنمنٹ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس اہلکار شامل ہیں جب کہ شہر قائد میں 3 مختلف طریقوں سے زمینوں پر قبضہ بھی کیا جاتا ہے۔ رینجرز اورواٹر بورڈ نے کئی بارگرینڈ آپریشن کرکے پائپ لائنوں کے ذریعے عوام کے گھروں تک پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر بلدیات نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف اپنی موجودگی میں کاروائیاں کی تو ان پر حملے ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غیر قانونی ہائیڈرنٹس، مرکزی سپلائی لائن سے روزا نہ قریباً دس ملین گیلن پانی پائپ لائن میں موجود پانی سے چراتے ہیں، پھر یہ چوری شدہ پانی پرائیوٹ لائنوں وٹینکرز کے ذریعے دیگر علاقوں کو فراہم کیا جاتا ہے، یہ مافیاٹینکرز کے ذریعے پانی کے غیر سرکاری اور بے ضابطہ سپلائر بھی ہیں، غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف جب بھی آپریشن کرکے ان کی تنصیبات کو ختم کیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ دوبارہ مخصوص کھیل کھیلاجاتا ہے، بالخصوص نادارن بائی پاس سے ملحقہ علاقے اورمنگھو پیر روڈ میں سینکڑوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو واٹر بورڈ نے ختم کرایا، لیکن جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی چلا گیا۔
وزیر اعظم (سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی)کے کراچی ترقیاتی پیکیج کے تحت منگھوپیر روڈ کی تعمیر اور بحالی کا منصوبہ 4ارب 43کروڑ10لاکھ روپے سے 18جون 2019 کو مکمل ہو نا تھا لیکن ابھی تک دو حصوں پر مشتمل منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔ منصوبے کے تحت جام چاکرو ناردرن بائی پاس سے بنارس فلائی اوور تک دو رویہ سڑک کی تعمیر کے ساتھ پہلے 66انچ قطر کی پانی کی پائپ لائن بچھائیگئی جبکہ دوسرے حصے میں بنارس فلائی اوو ر سے نشتر روڈ، تین ہٹی اور نیپیئر روڈ تک سڑک کی تعمیر کے ساتھ 48انچ قطر کی پانی کی پائپ لائن بچھائیگئی۔ اس منصوبے کے 2ارب 85کروڑ 26لاکھ روپے کے ٹینڈر ایوارڈ کیے گئے جن پر کام کا آغاز کیا گیا،منصوبہ کے تحت 11کلو میٹر طویل پائپ لائن بھی دو حصوں میں بچھائی گئی جب کہ 8.97کلو میٹر تک 66انچ قطر جبکہ 8.97سے 11.32کلومیٹر کے باقی حصے پر 48انچ قطر کی پائپ لائن بچھائی جا چکی ہے۔ واٹرپائپ لائن بچھانے پر ایک ارب 67کروڑ روپے خرچ کئے گئے لیکن جام چاکرو ناردرن بائی پاس سے بنارس فلائی اوور تک دو رویہ سڑک کی تعمیر ابھی بھی باقی ہے
11کلو میٹر طویل پائپ لائن پر سیکڑوں غیر قانونی کنکشنوں کو واٹر بورڈ نے دن رات کی محنت و کوششوں سے کاٹ دیا تھا،لیکن پانی چوروں نے دوبارہ کنکشن لے لئے جس کی وجہ سے منگھوپیر روڈ پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود سڑک خراب ہونے کا یقینی خدشہ رہے گا۔ واٹر گولڈ مافیا نے 66انچ قطر کی نئی لائن میں پانی آنے کا بھی انتظار نہیں کیا اور راتوں رات ہزاروں غیر قانونی کنکشن لے لئے تھے۔ اب کراچی واٹر بورڈ دن میں غیر قانونی کنکشن کاٹتے ہیں تو اسی رات منظم پانی چو مافیاردوبارہ غیرقانونی کنکشن لے لیتے ہیں، یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری وساری ہے۔ کرش پلانٹوں میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس بنے ہوئے ہیں اور عوام کو مہنگے داموں پانی فروخت کرنے کا سلسلہ بھی نہیں رک سکا۔ پانی کی فراہمی کے اہم منصوبوں کو بدقسمتی سے واٹر گولڈ مافیا ہائی جیک کرکے ایسی اسکیمیں بنا لیتے ہیں کہ صوبائی وزرا ء تک بے خبر رہتے ہیں، ایک معاملے میں وزیر بلدیات نے وزیراعلیٰ سندھ کے معاونین خصوصی اور پارٹی عہدے داروں کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ اپنے ماتحت ادارے میں ہائیڈرنٹس مافیا کی کارستانیوں سے لاعلم ہیں۔
سندھ بالخصوص کراچی میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان 36 کا آکڑہ لگا رہتا ہے۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لئے ترقیاتی کاموں کو نچلی سطح پر کرانے کا مقابلہ ہورہا ہے، لیکن بدقسمتی دونوں جماعتوں میں گروپ بندی کی وجہ سے حقیقی ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے۔ ترقیاتی کاموں میں ناقص میٹریل کا استعمال ہو یا پھر غبن اور خرد برد، عوام کی ٹیکس کے پیسوں کو کرپشن دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جماعتوں کی نچلی سطح کی قیادت اپنے ضلعی اور صوبائی عہدے داروں، وزراء پر بھر پور دباؤ بنائے رکھتے ہیں کہ ان علاقوں میں خصوصی فنڈز سے ترقیاتی کام کرائے جائیں، منظوریاں بھی ہوجاتی ہیں لیکن اربوں روپے کے کام زمین کے بجائے صرف کاغذ پر ہی نظر آتے ہیں جب ذمے دار وں سے ہم پوچھتے ہیں کہ ترقیاتی فند کہاں لگائے تو ٹکا سا جواب دیتے ہیں کہ جا کر ڈپٹی کمشنر سے پوچھو- اب یہ تو نہ سمجھنے والی بات ہے کہ ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ اتنے کروڑ فلاں یو سی میں لگے، فلاں سٹی ایریا کے لئے اتنے کروڑ ہمیں ملے، لیکن پوچھنے پر کہ لگے کہاں، اس سے بے خبر اور لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں، یہی حال غیر قانونی ہائیڈرنٹس بنانے والوں کا ہے وہ تیکنکی بنیادوں پر ایسا کھیل رچاتے ہیں کہ مرکزی قیادت کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے کہ ان کی ناک کے نیچے کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ واٹر گولڈ مافیا بیشتر سیاسی جماعتوں کی درمیانی قیادت کو اپنے ساتھ حصہ دار بنا لیتی ہے اور غیر قانونی حصے سے ان کا حصہ بھی مقرر ہوجاتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی علاقے میں کوئی جرم کھلے عام ہو اور نچلی سطح کے رہنماؤں کو علم نہ ہو، تاہم جب غیر جانب دار حلقوں کی وجہ سے ان کے راز فاش ہوتے ہیں تو پھر سوشل میڈیا پر اپنے کارکنان کو جھوٹے بیان دے دے کر خود کو سچا ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔کارکنان بچارے بھی کیا کریں اپنا کان دیکھنے کے بجائے کوے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ واٹر گولڈ مافیا کے خلاف ایک بار پھر آپریشن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو جتنا بھی پانی ملے اس کے بل حکومت اور متعلقہ اداروں کو ملیں تاکہ وہ مزید ترقیاتی کام کرسکیں، اگر اربوں روپیہ جرائم پیشہ عناصر کی جیب میں جاتا رہے گا تو سونے کی چڑیا کراچی کو نوچ نوچ کر کھائے جانے کا سلسلہ ختم کبھی ختم نہیں ہوگا-

اپنا تبصرہ بھیجیں