وہ نبیوں میں رحمت كالقب پانے والے………………….اظہاراحمد

جب سے ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوا ہے تو دل کر رہا تھا کہ ہمارے پیارے محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سیرت طیبہ پہ قلم اٹھاکر اپنا نام بھی سیرت کے لکھاریوں کی صف میں شامل کروں ۔
سوچ سوچ کر پریشان حال تھا کہ شروع کہاں سے کروں۔پھر خیال آتا کہ شروع تو کر لو گے اظہار!! لیکن ختم کیسے کرو گے؟۔ تو پھر ہاتھ رک جاتا کہ اس ذات کے اوپر اگر لکھنا شروع کیا جائے ساری سیاہییاں ختم ہو جائیں گی،سارے قلم گھس جائیں گے ،انگلیاں لکھتے لکھتے تھک کر جواب دے دیں گی۔ لیکن آقائے نامدارمحمد مدنی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور زندگی کے چند لمحات کو بھی نوک قرطاس نہ لا پاونگا۔کیونکہ نبی آخرلزماں کی شان ہی ایسی نرالی ہے جسکی ذات مقدس کےلیے ہمارے پاس لفظوں کا ذخیرہ دور دور تک نہیں۔
“ہم کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا” کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ کی سیرت پر قلم اٹھانا ایسےہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
لیکن بہرحال میں سیرت المصطفی ،احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پہ لکھنے کا حق تو ادا نہیں کر سکتا ،لیکن “بلغو عنی ولو ایۃ”کے تحت کچھ باتیں اپنے نبی کی زیر قلم لاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کل جب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کا نام پکارا جائے تو شاید ہم پر بھی اس بہانے رحمت کی نگاہ پڑ جائے۔
اگر میں یہ کہوں تو بے جاہ نہ ہوگا کہ اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے چار پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
پیدائش سے پہلے ،نبوت سے پہلے،مکی زندگی کااور مدنی زندگی۔
بات اگرنسب کی کی جائےتو اللہ کے نبی کا چناؤایسے عمدہ ونفیس و شریف خاندان سے ہواکہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار حسب ونسب سب سےافضل واشرف تھے،اللہ کے نبی نے “لقد جاءکم رسول من انفسکم”کی آیت تلاوت فرمانےکے بعد خود فرمایاکہ”میں باعتبار حسب ونسب کے تم سب سے افضل اور بہتر ہوں۔میرے آباء واجداد میں حضرت آدم سےلیکر اب تک کہیں زنا نہیں ،سب نکاح ہے۔
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ تک سلسلہ نسب میں جتنی بھی امہات واجداد آئے،تمام کے تمام سبحان اللہ محصنین اور محصنات تھے یعنی سب کے سب پاکدامن ۔
واہ قربان جائیں اس ذات پہ جسکے قبض قدرت میں ہماری جان ہے نےہمارے آخری نبی کو ایسے خاندان سے چنا ،تاکہ کوئ ان کے نسب مبارک و مطہرپہ لب کشائی کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
یہی وجہ تھی کہ کفارمکہ بھی اس نسب کی عظمت کے انکاری نہ تھے، ہرقل کے دربار میں حضرت سفیان رضی اللہ عنہ جو اس وقت مسلمان نہ تھے تو بڑے دشمنوں میں ان کا شمار ہوتا تھا،انہوں نے بھی کہا تھا کہ “محمد ہم میں بڑے اعلی خاندان سے ہیں”۔اگر کوئ عیب ہوتا تو وہ بنا بیان کیے وہ کیسے رہ پاتے،اورشاہ ہرقل کی خوشنودی حاصل کرنے کے اس موقع کو کہاں ضائع ہونے دیتے۔
اللہ کے نبی آخرالزمان کی پیدائش مبارک ابھی ہوئی ہی نہیں تھی ،كه ان کے خاندان پربرکات کانزول شروع ہو چکا تھا۔
والد کے نام مبارک کوہی دیکھ لیں ،جو ایسا نام ہے جو اللہ سبحانہ کی ذات مقدس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب دونام جن میں سے ایک عبداللہ دوسراعبدالرحمان ہے۔
اس نام سے قرآن کی آیت کی طرف اشارہ ہوتا ہے،جہاں اللہ سبحانہ ارشاد فرماتے ہیں:”قل ادع اللہ اوادعوالرحمن”۔حضرت کاندھلوی رح اپنی کتاب سیرت المصطفی میں رقم طراز ہیں“کہ بعید نہیں اللہ کی ذات نے حضرت عبدالمطلب کے دل میں خاص طور پہ من جانب اللہ القاءکیا گیا ہو کہ اس فرزند ارجمند کے نام تو ایسا رکھیو جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔
اللہ سبحانہ نے قریش کی کم وپیش پچاس دن پہلےمدد ونصرت کی واقعہ فیل کے موقع پہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سرور کائنات تشریف لانے والے ہیں۔ خانہ کعبہ کے متولی قریش تھا اور اللہ نے اس قبیلے میں اپنے نبی کو لانا تھا اور اس خاندان کی حفاظت بوجہ نبی آخرالزمان کے فرمائی ورنہ قریش مشرک اور بت پرست تھے۔
ہمارے پیارے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونے کے وقت اللہ سبحانہ نے کچھ معجزات کو ظاہر فرمایا۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوہ میں لکھتے ہیں”آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں آیات و کرامات بے شمار ہیں ،جن میں سے چند ایک یہ ہیں ،کہ ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا اور رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری ہو گیا ،حالانکہ اس سے قبل اسے منقطع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا اور فارسیوں کا آتشگدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا”
احسن المواعظ میں ایک عجیب وغریب واقعہ لکھا ہے کہ جب نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی یمن میں ایک عامر نامی اپنے بت خانے میں بیٹھا تھا تو جب سرکار دو جہاں کی ولادت باسعادت کا وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مشرق سے مغرب،جنوب سے شمال زمین سے آسمان تک محیط تھا۔عامر حیران تھا کہ یہ کیاہو رہا ہے یکایک عامر کا بت اوندھاگرا اور یہ کلام کیا:”جہاں میں تشریف لائے وہ نبی جن کا سینکڑوں برس سے انتظار تھا جن سے درخت اور پتھر کلام کریں گے جن کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگا عامر نے اپنی زوجہ سے کہا تم نے سنا جو میں سنتا ہوں؟بی بی نے کہا “ہاں عامر ذرا یہ تو پوچھ لو کہ وہ کہاں پیدا ہونگے اور کیا نام ہوگا”۔ عامر نے پوچھ “اے عاتف غیبی اس مبارک فرزند کا نام کیا ہے”؟بت نے کہا “کہ آپ کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے”۔(جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں