وہ نبیوں میں رحمت کا لقب پانے والے……………………….اظہاراحمد

(حصہ دوم)
۔۔۔۔۔سرکار دوحہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش عام بچوں کی پیدائش کی طرح نہ تھی۔
امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “اسحاق بن عبداللہ حضرت آمنہ سے راوی ہیں کہ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا ہوئے تو نہایت نظیف تھےاور پاک صاف تھے جسم اطہر پر کسی قسم کی آلائش اور گندگی نہ تھی”۔
جب نام کی باری آئی سبحان اللہ سیدہ آمنہ کو رویا صالحہ ہوئ کہ تم سید الامم کی حاملہ ہو اس کا نام محمد رکھنا(صلی اللہ علیہ وسلم )۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عبد المطلب نے بھی ایک عجیب وغریب خواب دیکھا کہ ان کی پشت سے ایک زنجیر ظاہر ہوئی ہے جس کا ایک سرا آسمان اور ایک زمین کے ساتھ،ایک مشرق اور ایک مغرب کی طرف پھیلا ہوا ہے پھر اچانک وہ زنجیر ایک درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہےجسکے ہر پتہ پہ ایسا نور ہے جو ستر درجہ سورج کی روشنی سے کہیں زائد منور ہے۔قریش میں سے کچھ لوگ اس کی شاخیں پکڑتے ہیں اور کچھ قریشی شاخوں کو کاٹنے کےارادہ میں لگے ہیں۔اسی اثنا میں ان کو ایک حسین و جمیل خوبصورت جوان ان کو کاٹنے سے روکتا ہے۔ جب خواب کی تعبیر بتانے والوں سے پوچھا آخریہ کیا ماجرہ ہے؟ تو انہوں نے عبدالمطلب سے کہا “کہ آپ کی نسل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا جسکی اتباع مشرق سے مغرب تک لوگ کریں گے اور آسمان سے لیکر زمین تک اس کی حمدوثنا ہوگی”۔ اسی وجہ سے عبد المطلب نے آخری ٹکڑے کو لیکر نام محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھ دیا۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد کا نام “عبداللہ” رکھنا ایک الہامی تھا اسی طرح ہمارے آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی اللہ سبحانہ کی طرف سے الہامی تھا۔
جب اسم مبارک اللہ سبحانہ کی طرف سے ایسا چنا گیاجسکے ایک معنی “جسکی سب سے زیادہ تعریف کی گئ ہو “جسکے محاسن اور کمالات محبت اور عظمت کے ساتھ کثرت سے بار بار بیان کیےگئےہوں۔ واقعی زراغور فرمائیں! اس کائنات میں اگر اللہ سبحانہ کی ذات کے بعد جس ہستی کی اگرتعریف کی گئ ہے تو وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔
نام مبارک کے بعد جب باری آئی آقا علیہ صلاۃوسلام کے دودھ پینے کی۔اللہ سبحانہ نے اس کا بھی انتظام فرما دیا۔ سیرت کی کتاب دلائل النبوت میں حضرت حلیمہ سعدیہ کا واقعہ تحریر ہے کہ جس سال آقائے دو جہاں پیدا ہوئے بڑا سخت ترین سال تھا،قحط سالی عروج پہ تھی۔حلیمہ سعدیہ کے گھر فاقوں کی نوبت تھی،بھوک اور افلاس کی وجہ سے بدن بہت نخیف ہو چکا تھا۔ چلنا دشوار تھا۔ایک رات وہ سوئی ہوئیں تھی،خواب میں دیکھتی ہیں کہ اچانک ایک بزرگ شخص نمودار ہوئے اور ان کو جگا کر اپنے ساتھ ایک نہر پہ لے گئے،ایسی نہر جس کاپانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا تھا،اس بزرگ نے فرمایا کہ “اے حلیمہ اس پانی کو پیؤ اور حرم چلی جاؤ وہاں آپ کے لیے اللہ نے ایک بہت بڑی دولت رکھی ہے”۔حلیمہ کی تمام تکالیف اس پانی پینے کے بعد ختم ہو گئ،دوبارہ ایک نیئ زندگی کی امید جاگ گئ ۔صبح بیدار ہوئںیں ،بغیربتائے گھر والوں کو حرم کی طرف نکل پڑی۔حلیمہ کو کیا معلوم تھا کہ میں جس دولت کو لینے جا رہی ہوں وہ کون شخصیت ہے،اُن کو کیا معلوم تھا کہ میں جس دولت کو گود لونگی،وہ ختم الرسل ہوگا،اُن کو کیا معلوم تھا کہ وہ آگے چل کر امام الانبیاء بنیں گے۔اُن کو کیا معلوم تھا کہ مکہ میں ان کا ایسی شخصیت انتظار کر رہی تھی جسکی خاطر اس کائنات کو اللہ سبحانہ نے وجود بخشا،دنیا پہ مہربانی فرما کر ایک ایسی عظیم شخصیت عنایت فرمائی جسکی کوئی نظیر نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہو سکے گی۔
سیرت دان لکھتے ہیں کہ جس نہر سے خواب میں حلیمہ کو پانی پلایا تھاوہ جنت کی نہر الحیوۃ کہلاتی ہے۔اس کی ادنی صفت یہ ہے مردوں کو زندہ کرنا۔ یہ وہی نہر ہے جب رحمت العالمین ،شفیع المذنبین اپنی امت کے گناہگاروں کو جہنم سے نکالیں گےاللہ کی ذات سےسفارش کرنے کے بعد ،تو اس نہرمیں ڈالنے کا حکم ہوگا ان سب کو۔تو وہ سب کالے سوختے چودھویں رات کے چاند کی صورت روشن ہوکر نہر سے برآمد ہونگے۔
حلیمہ کو یہ پانی پلانےمیں حکمت یہ تھی کہ عنقریب ان کے جسم سے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم دودھ نوش فرمائیں گے تو اس دودھ کے پینے کے بعد آپ علیہ سلام میں مردہ دلوں کو زندہ کرنے کا اثر پیدا ہو جائے۔اللہ اکبر، جب حلیمہ اپنی لاغر اونٹنی پہ مکہ دیر سے پہنچی تو دوسری دائیاں اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کے شیر خوار بچے لے چکیں،تو حضور چونکہ یتیم تھے اس لیے ان کو کسی نے نہ لیا۔وہ بدقسمت سمجھ رہی تھیں کہ ہمیں دودھ دینے کے بدلہ میں اس یتیم کے گھر سے کیا ملے گا۔ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایسی شخصیت ہے کہ اس پہ کائنات کی ساری دولت بھی قربان کر دی جائے تو بھی کم ہے۔حلیمہ پھرتی رہی جب کوئ بچہ نہ ملا تو آخر عبدالمطلب کے گھر آئیں،پوچھا”کوئی بچہ ہو تو دے دیں” ۔ عبد المطلب نے کہا بچہ تو ہے لیکن سب دائیوں نے اس لیے چھوڑا کہ یہ یتیم ہے ۔ قربان جاؤں حلیمہ پہ بخوشی قبول کرلیا۔دنیا کی دولت کو لات مارکر لازوال دولت کو لے لیا۔جب دودھ پلانے کے لیے آقا کو چھاتی پیش کی،جو بھوک کی وجہ سے خشک تھی ایک دم سے حضور کی برکت سے ددوھ ٹپکنے لگا۔آقا علیہ سلام نےایک طرف سے پینے کےبعد دوسری طرف کی چھاتی کو چھوا تک نہیں ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کی طرف سے الہام ہوا کہ دوسرے حلیمہ کے حقیقی بچے کا حصہ ہے۔ اس کے بعد نبی آخرالزمان نے کبھی بھی بائیں جانب دودھ نوش نہیں فرمایا۔
آقا علیہ سلام کی حلیمہ سعدیہ کے گھر آمد پر برکتوں کے نزول شروع ہوگئے ،فاقے ختم ہوگئے ،پریشانیاں ختم ہوگئیں۔
بہرحال اللہ کے نبی کی زندگی کی بہاریں بڑھنا شروع ہوئیں ،بچپن ہی سے اللہ سبحانہ کی طرف تربیت شروع ہو چکی تھی۔شق صدر کے زریعہ سے وہ تمام گناہ کے مادے جو ایک عام آدمی کے دل میں ہوتے ہیں،سارے کے سارے نکال دیے۔نبوت کے لیے تیاریاں شروع تھیں۔بچپن ہی سے صادق و امین۔کبھی زندگی میں کسی کو تکلیف نہ دی۔نہ ہی کسی سے بدلہ کی خواہش رکھی۔نہ ہی کسی کا حق مارا۔ ان کے اخلاق کے اپنے تو کیا بیگانے بھی فریفتہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب خان کعبہ کو تعمیر کررہے تھے، جب حجر اسود کے رکھنے کا موقع آیا،تو ہر قبیلہ یہ چاہ رہاتھا کہ یہ سعادت مجھے ہی ملے کہ اس کو جگہ مخصوص پہ رکھوں،نوبت لڑائی جھگڑے اور قتلُ و غارت تک پہنچ چکی تھی ۔بات جب نہ بنی تو رات کو یہ فیصلہ ہوا کہ جو کل صبح سب سے پہلے حرم آئےگا وہی حجراسود کورکھےگا۔صبح جب لوگ آئے تو کیا دیکھ رہے ہیں،آقائے دو جہاں کو پایا توتمام قبیلےنے حضور کو دیکھ کر بخوشی کہہ دیا”واقعی محمد سے زیادہ کوئی بھی اس کے رکھنے کا مستحق نہیں”۔کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم عمدہ ،اخلاق کریمانہ کا پیکرمشہور تھے۔لیکن قربان اپنے محسن انسانیت پہ کہ انہوں نے اکیلے اس خدمت کو انجام نہ دیابلکہ سب کو اس سعادت میں شریک کیا،ایک چادر منگوا کر تمام قبائل کے سرداران کو بلایا چادر کا ایک ایک کونہ پکڑایااور خود دست مبارک سے اس کو مخصوص جگہ پہ رکھ دیا ۔
آقا علیہ سلام کی زندگی ایک نمونہ تھی نبوت سے پہلے اپنے کردارسےلوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔اسی لئے اللہ نے نبوت کی نعمت عنایت فرمانے کے بعد حکم فرمایا کہ اب علی الاعلان دعوی نبوت فرمائیں!(جاری ہے)
تیسرااور آخری پہلو۔کل انشاءاللہ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں