میرے ڈاکٹر اسرار

اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
مئے وحدت پی کر مخمور ہونے والے میرے ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی ساری زندگی نوجوانوں کو نالئہ محمدی سنانے میں گزاردی۔26 اپریل 1932 کو پیدا ہونے والے بچے نے دنیا بھر میں انقلاب برپا کر دینے والے لٹریچر کو تخلیق کیا نا کبھی اپنوں کی محبت سے مرعوب ہوئے نا اغیار کے رعب و دبدبہ کی پرواہ کی۔ جیسے پھول خوشبو کے بغیر ادھورا ہوتا یے یہ امت نفاذِ شریعت کے بغیر ادھوری ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد شریعت محمدیہ کی شمع کا پروانہ ہے۔ جس نے چراغ وحدت کے طواف میں زندگی گزاردی۔
طائرم در گلستاں خود غریب
وہ ایسے پرندے کی مانند تھے جو خود اپنی گلستاں میں اجنبی تھے۔
ایم بی بی ایس کرنے والے کتنے ہی ڈاکٹر آئے اور جوتیاں چٹخاتے گزر گئے۔ مٹی مٹی میں مل کر خاک ہو گئی مگر ڈاکٹر اسرار وہ ہے جس نے اسرار خودی کو افشا کیا۔ اسرار محمدی نبوی کی ترویج کی اور اسرار بندگی عام کی۔ سود کے خلاف دو ٹوک موقف رکھا چاہے امراء ہو یا سلاطین سود اللّٰہ ورسول کے خلاف جنگ ہے، حرام ہے اور شیطان کا بچھایا ہوا خوشنما جال ہے۔ تہذیب ملت کا وہ سیاہ داغ ہےجس نے رزق حلال کو معدوم کر کے غلامی کا طوق اس امت محروم کے گلے ڈال دیا۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں
بیگانے بھی نا خوش
آج کل کے سرکاری مولوی سود پر بات تک نہیں کرتے، قانوںی اور اقتصادی وزیر مشیر پاکستان کو کنگال ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر کوئی سود کے خلاف نہیں بولتا۔ یہاں تک کہ دینی پارلیمانی جماعتیں جیسا کہ جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں کر سکے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کا خمیازہ ہے جو ہم اس وقت بھگت رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کی جماعت تنظیم اسلامی سودی نظام کے خلاف اپنی سی کوشش کر رہی ہے مگر کوئی پارلیمانی و انتخابی نمائندہ نا ہونے کی وجہ سے ایسا کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر سکے۔
جبکہ ڈاکٹر صاحب نے کمیونزم اور کیپٹل ازم کے بالمقابل اسلامی اقتصادی نظام پر مروجہ و مفصل بات کی۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تینوں کا سی ٹی سکین کر کے ایک ایک نقطے کو کسی ماہرِ معیشت کی طرح سمجھا کر ثابت کیا کہ اسلامی اقتصادی نظام ہی اس ملک و امت کی بقا ہے۔ ورنہ تا قیامت ہاتھ میں کشکول تھامے کفار سے بھیک مانگتے رہیں۔ آج بیس سال بعد ان کی پیشیں گوئیاں من و عن درست ثابت ہوئیں اور آج ہمارا سٹیٹ بنک آئی ایم ایف کے قبضے میں مکمل طور پر جا چکا
اللّٰہ کی حاکمیت اور بس اللّٰہ ہی کی حاکمیت اس بندہ غیور کا مقصد و منشاء تھا۔
کارل مارکس یہودی فلاسفر جسے قانونی اور معاشی فلسفے کے بانی کی طرح سمجھا جاتا ہے ،سے لے کر نپولین کے جمہوریت کے نظام تک ہر ایک طرز حکومت کا پوسٹ مارٹم کر کے دنیا کو بتا دیا کہ اصل نظام ریاست وہ ہے جو خلافت ہے۔ جس میں حاکمیت اللّٰہ کی اور خلافت بندے کی ہے۔خلافت کے ٹوٹنے سے بہت دل شکستہ تھے۔ باشاہت،جمہوریت ، پارلیمانی اور صدارتی نظامِ حکومت کو ہر لحاظ سے ناقص اور غیر مستحکم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک خلافت کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خلافت عثمانیہ کا ٹوٹنا دراصل یہودیوں کا اسرائیل کی راہ آسان کرنے کی ایک چال تھی۔ جو وقت نے ثابت کیا، آج بھی مسجد اقصیٰ کو لہو لہو کیا جا رہا ہے۔ اور کوئی ریاست اسلامیہ ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ۔ یہاں تک کہ او آئی سی پر بھی خاموشی کا جمود چھایا ہوا ہے۔
خدا کے عطا کردہ علم کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن کی ایسی منفرد اور دلچسپ تفسیر کی جو تاریخ اسلام، عصری مسائل اور اقوام عالم کی شطرنج کو سمجھاتے ہوئے قاری کو مستقبل کا نقشہ بالکل صاف وشفاف دکھاتا ہے۔ ان کی کی گئیں پیشن گوئیاں من وعن درست ثابت ہوئیں۔
احیائے دین اور اسلامی نظام کا نفاذ ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ یہودیت اور صیہونی و طاغوتی قوتوں کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ شیطانی چالیں ابلیسی نا پاک عزائم کیا ہے، کیسے اسلام کو دبانے کے لئے کوشاں ہیں، ماسٹر مائنڈ کون ہے، نظریہ کیا ہے، طریقہ کیا ہے۔ ایک ایک نقطے کو اتنا مفصل اور جامع انداز میں بیان کیا کہ سامعین کو سیاست عالم کو سمجھنے کے لئے مزید کسی تحقیق کی ضرورت نا رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد اور قائدین پڑھے لکھے اور انٹیلیکچول لوگ تھے اور آہستہ آہستہ شعور پھیلتا رہا اور آج بچہ بچہ ان کے بیانات سن کر آسمانوں سے پرے دیکھ رہا ہے۔ ان کے نزدیک تبلیغ اور غلبئہ دین بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامکمل ایجنڈا ہے جو امت وسطی کو تفویض کیا گیا ہے۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
فتنہ قادیانیت، صیہونیت کا بچھایا جال یہودیت کی ریشاں دوانیاں، دنیا پرستی کی لعنت، شرک کا عذاب اور اسلامی معیشت کا ہر متبادل نظام ڈاکٹر اسرار احمد کے بیانات میں تنقید کی نوک تلے رہے۔
ناصرف منافقین بلکہ یہودیوں کی ناپاک ریاست اسرائیل نے ڈاکٹر اسرار احمد کو انتہا پسند قرار دلا کر ان کے یوٹیوب چینل کو بند کروا کہ جشن منایا۔ یہ بات اس ملک خداد کے باشندوں کو سمجھ لینی چاہئے ہے کہ اگر کسی نے یہود کی اصل پہچان کرنی ہے تو ڈاکٹر صاحب کا فلسفہ آج سے بیس سال پہلے یہ باور کروا رہا ہے کہ افغانستان صرف بہانا ہے ہمارا ایٹم بم نشانہ ہے۔ یہ ایٹمی قوت یہود و نصاریٰ کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو ہر گز ہر گز اسرائیل کو ناصرف تسلیم نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ سارے راستے بند کر دینے چاہئے جن سے یہ چالاک دشمن پینگیں بڑھا سکتا ہے۔
اتنے ذہین و فطین ہونے اور شہرت رکھنے کے باوجود نہایت سادہ طرزِ زندگی رکھا۔ عائلی زندگی میں فلاسفر بن کر نہیں بلکہ اپنے نبی کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گھل مل کر رہتے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی دستار ، عظیم سے عظیم رتبہ اور بہترین سے بہترین ایوارڈ بھی ڈاکٹر صاحب کے پیروں کی دھول ہیں۔
مگر افسوس کہ یہ ملت اسلامیہ ایسے نگینے لوگوں کی قدر کما حقہ نہ کر سکی اور کئی ہیرے مٹی میں رول دیئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں