عمران خان اور آوازِ خلق………محمد رفیق علوی

الزام وہ لگانا چاہیے جسے کوئی ماننے کو تیار ہو یا اسے کسی صورت مانا جا سکے۔ چھوٹی مریم میڈم کہتی ہیں کہ توشہ خانے میں خیانت کی لیکن میاں صاحب کے اپنے شہر لاہور میں ریکارڈ توڑ جلسے میں شامل انسانوں کے سمندر نے عمران خان کے لیے اعلان کیا کہ ہمیں تم سے پیار ہے ۔ہمیں تم پہ اعتبار ہے۔
دوسری سب سے بڑی خلافِ حقیقت بات جس پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کہ مراسلہ جھوٹا ہے اور کوئی سازش نہیں ہوئی۔ کیوں ”چِٹا جھوٹ ”بول کر اپنی ساکھ کو مزید خراب کر رہے ہیں؟ ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس میں اعتراف کر چکا ہے کہ مراسلے کا متن ہمارے ملکی معاملات میں مداخلت ہے۔ اسی کی بنیاد پر باہمی مشاورت اور متفقہ رائے سے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے اس حرکت کی تحریری اور زبانی مذمت کی گئی جو ہمارے ایسے غریب ملک کے لیے بذاتِ خود ایک بڑا ایکشن تھا۔ سازش کمزور لوگ کسی طاقتور کے خلاف خفیہ طریقے سے کرتے ہیں جبکہ مداخلت طاقت کے نشے میں بد مست لوگ علی الاعلان اپنے سے کمتر لوگوں کے معاملات میں مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔ مداخلت کا اقرار کرنے کا مطلب ہے کہ مراسلہ بھی اصلی ہے۔ اس کی زبان بھی دھمکی آمیز ہے۔ اس میں جزا اور سزا دونوں کا ذکر ہے اور پاکستان کی تمام اعلی اختیاراتی ہستیاں سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں اس کے برے اثرات کا ادراک بھی کر چکی ہیں اور اس پر مستزاد وزیر مملکت برائے خارجہ امورحنا ربانی کھر کا سفیر کے اس عمل کو پیشہ وارانہ سروس قرار دینا مراسلہ کی حقانیت کا ثبوت ہے۔موجودہ حکومت اب ان تمام تسلیمات کو اپنے مذموم مقاصد کے تحت زبانی بیان بازی سے undo کرنا چاہتی ہے۔
تحریک انصاف کا جلسہ لاہور نا صرف تاریخ ساز تھا بلکہ اس نے ملک کی سمت کا تعین کر دیا۔اس دن بے پناہ ہجوم ہونے کی وجہ سے میں مینارِ پاکستان گرائونڈ تو نہ پہنچ سکا لیکن جلسے کا براہ راست نظارہ خوب کیا کیونکہ کچہری چوک سے لیکر بتی چوک تک سڑک دونوں طرف سے شرکت کرنے والوں سے بھری ہوئی تھی۔ ایک طرف سے لوگ مسکان بکھیرتے ہوئے کہیں لیٹ نہ ہو جائیں کے خوف کے تحت برق رفتاری سے کشاں کشاں مینار پاکستان کی طرف کھچے چلے جا رہے تھے تو دوسری طرف بہت سے لوگ جھنڈے پکڑے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں پژمردہ اور ڈھیلے چہروں کے ساتھ واپسی کے سفر پر گامزن نظر آئے۔واپس آتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر کچھ تشویش ہوئی لیکن بتی چوک پہنچ کر عقدہ کھلا کہ اس وقت آگے جانا ممکن نہیں اور واپسی کا ہی واحد آپشن دستیاب ہے۔ درحقیقت کچہری چوک سے بتی چوک تک سارا راستہ ایک جلسہ گاہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جگہ جگہ پی ٹی آئی اور قومی ترانوں، ہجوم کے فلک شگاف نعروں اور جوانوں کے رقص نے ایک عجب جذباتی سما باندھا ہوا تھا۔
لڑکپن سے لیکر جوانی تک کئی مذہبی اور سیاسی جلسے اور جلوسوں میں شرکت کی لیکن پی ٹی آئی کے اس جلسہ لاھور کے dynamicsہی مختلف پائے۔ اُمرا ء و رئوسائ، بچے، جوان، بوڑھے، لڑکیاں بالیاں، بوڑھی مائیں ضعیف العمری سے بے پرواہ، مزدور، کسان، ریڑھی والا، رکشے والا، پینڈو، شہری بابو، سرکاری افسر(پی سی ایس اور سی ایس ایس والے)، پرائیویٹ ملازم، شوبز ستارے، سوسائٹی کے آزاد اور بے باک طبقات صحافی اور وکلا سبھی لوگ موجود تھے۔ ایک خوش تو دوسرا غم و غصے سے بھرا ہوا، کسی کے چہرے پر حزن و ملال تو کوئی جوش و جذبے سے سرشار، کوئی ماضی کا ناقد تو کوئی مستقبل سے پر امید، ایک ججوں جرنیلوں پہ برہم تو دوسرا سب کو آئینہ دکھانے کے لیے پر جوش ، کسی کو لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی دھونس دھاندلی کا خطرہ وخدشہ تو کوئی دوسرا بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق کی عملی شکل بننے کو بے تاب۔ اس جلسے کے شرکا ء کی کیفیات چیخ چیخ کر پکار رہی تھیں
مصلحت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
23مارچ1940میں اٹھنے والی تحریکِ پاکستان کا نقطہ آغاز ہونے کا بے مثال اعزاز لاہورکو ہی حاصل ہے اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد لاہور نے اپنی اس وراثت کی خوب حفاظت کی ہے۔ پاکستان کے سب ہی جہاندیدہ سیاستدان اس حقیقت کے بجا طور پر معترف ہیں کہ لاہور پاکستان میں اٹھنے والی ہر سیاسی تحریک کا دل ہے۔ لاہور میں ملنے والی پذیرائی پورے پاکستان میں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے ۔ اس معیار کے مطابق پی ٹی آئی کے مینار پاکستان کے جلسے کو پرکھیں تو بھاری بھرکم قوتوں کیلئے طبلِ جنگ بج چکا اور عمران خان نے محتاط الفاظ میں اس کا اظہار بھی کردیا ہے کہ ہم کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے۔ کراچی کے جلسے میں بھی متنبہ کرچکا ہے کہ ہمیں دیوار سے مت لگایا جائے۔عمران خان نے یہ نیااندازِ پیام اپنایا ہے کہ پوری بات کرنے کی بجائے آدھی بات کر کے باقی آدھی بات کسی دوسرے موقع پر کرتا ہے تاکہ سننے اور غور کرنیوالے اس درمیانی وقفے میں اس ادھوری بات کے سارے پہلوں پر اچھی طرح سے غوروفکر کر لیں۔کراچی میں صرف اتنا کہا کہ ہمیں دیوار کیساتھ نہ لگایا جائے۔ لاہور میں آکر بتایا ورنہ تصادم ہو گا اور ہم وہ نہیں چاہتے۔
نواز شریف اور عمران خان کی تحریکوں میں دو بڑے واضح فر ق ہیں ۔ نواز شریف نے للکار للکار اور پکار پکار کر پوچھا مجھے کیوں نکالا؟ جنرل باجوہ !تمہیں جواب دینا پڑیگا۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض! تم اس کے ذمہ دار ہو اور تمہیں حساب دینا پڑیگا۔ پھرچشمِ فلک نے فوج کے خلاف اسی نظریاتی نواز شریف کی جماعت کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے بخوشی ووٹ دیتے ہوئے بھی دیکھا۔ دوسرا یہ کہ نواز شریف نے عوام کو اس فوج مخالف تحریک کے لئے سڑکوں پر لانے کی پوری کوشش کی لیکن مطلوبہ پذیرائی نہ مل سکی جبکہ عمران خان نے ایک کال دی۔ خود اپنے گھر میں موجود تھا اور لوگ خود بخود سڑکوں پر آ گئے۔ اس حوصلہ افزا عوامی ریسپانس نے بظاہر شکست خوردہ عمران خان کو جدوجہد کے لیے بھر پور ہمت دی اور وہ لگوٹا ،کَس کے میدان میں آگیا۔ پھر پشاور ، کراچی اور لاہور میں جلسوں کے نئے ریکارڈ قائم کر ڈالے اور خطاب میں پاکستان کیلئے مضبوط فوج کی اہمیت کا بھی اعتراف کرتارہا۔ دل کی باتیں ایک منجھے ہوئے statesmanکی طرح اشاروں کنایوں میں کہہ بھی دیں۔ مجموعی طور پر عمران خان بھی عوام کی طرح فوج کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے لیکن اس کی یہ بات کہ غلطی جنرل مشرف نے کی تھی اور سزا پوری فوج نے بھگتی، بڑی ”معنی خیز ”ہے اور سمجھنے والے بھی سمجھ گئے ہونگے۔
وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بڑی ناگوار گزری ہے
موجودہ حکومت کی کابینہ سازی میں مشکلات اور تاخیر، مخلوط حکومت کے سربراہان کی باہمی رنجشیں اور ذاتی اور نظریاتی اختلافات، اتحادیوں کا باہمی عدم اعتماد، عمران خان کا تاریخ ساز جلسوں کے ذریعے عوام کو متحرک کرنا اور مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران خان کو مذاکراتی ٹیبل پر لانے کی کوشش، یہ سب باتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انتخابات کا انعقاد جلد متوقع ہے۔ موجودہ حالات کی نبض کو سمجھتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کا فوری اعلان ہی ملک کو اس سیاسی انتشار سے نکالنے کا واحددانشمندانہ حل ہے۔عدمِ اعتماد کے ڈرامے سے پہلے تک اپوزیشن پارٹیاں بھی یہی مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
جلسے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے ایک ستر سالہ بزرگ سے پوچھا کہ بابا جی آپ بھی عمران کے ساتھ ہو؟ تو کہنے لگا پتر اللہ جیدھے نال ہووے لوک بھی اوہدے نال ہو جاندے نے۔ در اصل بابا جی نے آفاقی حقیقت سادگی سے بیان کر ڈالی کہ آوازِ خلق کو نقار ئہ خدا سمجھو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں