رنج لیڈر کو بہت ہے مگر۔۔ ۔ قادر خان یوسف زئی

سابق وزیراعظم کی جانب سے مبینہ امریکی سازش کے بیانیہ کی جو بحث جلسوں میں چل رہی ہے اور ہر آن ایک ہی بیان ہے کہ ان کی حکومت کو بیرونی مداخلت کے ذریعے میر جعفر اور میر صادق نے سازش کرکے گرایا ۔ انہوں نے پہلے اپنے منحرف اراکین پر کرپشن اور امریکی اہلکاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا مبینہ الزام لگایا تو ساڑھے تین برس ہر جائز اور ناجائز قانون سازی یا پالیسی میں ساتھ دینے والے سابق اتحادیوں پر بھی سنگین الزامات عائد کئے ۔ ان کا یہیں پر توقف نہیں رہا بلکہ وفاق و پنجاب میں ان کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانے والے جہانگیر ترین اور علیم خان بھی محفوظ نہیں رہے اور ان پر بھی اختیارات سے متجاوز ہونے کے لیے دبائو اور راہیں جدا ہونے کی بظاہر اصل وجوہ بتادی۔ اتحادی جب تک ان کے ساتھ تھے، اچھے تھے، سچے تھے ،نفیس تھے ، لیکن اب ان میں ہر وہ خامی نظر آرہی ہے جن کی وجہ سے انہیں رات کی تاریکی میں وزیراعظم ہائوس سے نکلنا پڑا ۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ ایک بڑا لائو لشکر انہیں وزیراعظم ہائوس سے بنی گالا رخصت کرتے ہوئے مکمل یگانت و یکجہتی کا اظہار کرتا، شاید معاونین انہیں یہی مشورہ دینے آئے تھے لیکن وہ ایک زخمی شیر کی طرح گھائل اکیلے سدھار گئے۔
کئی عرصے سے ملک میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے، اس بحث کا بنیادی نکتہ اور استدلال یہ ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ عوام کا نمائندہ ادارہ ہے لہٰذااسے دیگر تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ یہ دراصل وہ نظریہ ہے جو انگلستان میں بادشاہ اور چرچ کے مابین کشمکش کے زمانے میں عوامی نمائندوں کی اتھارٹی کو تقویت دینے کی خاطر اختیار کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کا ماننا ہے کہ ’’آئین پارلیمنٹ سے بالادست ہے۔‘‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کے ضمن میں جو اصحاب یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے لہٰذا وہ بالاتر ہے ، وہ اس موقع پر یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ ایک آئین کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ تو یقیناًہوتی ہے مگر وہ آئین ساز ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے جو آئین سے متضاد یا متصادم ہو ، اسی طرح آئین نے سپریم کورٹ کو تشریح کا حق دیا ہے ، پارلیمنٹ آئین کی تشریح نہیں کرسکتی، جس طرح پارلیمنٹ آئین سے متصادم قوانین نہیں بنا سکتی، اسی طرح سپریم کورٹ بھی آئین سازی نہیں کرسکتی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ ایک دوسرے سے بالاتر نہیں بلکہ آئین کی دی ہوئی حدود اور اختیارات کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں جس قسم کا بھی ہو ایک جمہوری نظام موجود ہے اور ادارے اسی نظام کے تابع کام بھی کررہے ہیں ۔ ایسا ضرور ہے کہ بعض مقدمات کی وجہ سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بادی ٔ النظر محاذ آرائی پیدا ہوئی ، بعض معاملات پر کشیدگی محسوس کی گئی لیکن یہ امر خوش آئند رہا کہ ماضی کے برعکس سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے میںرہ کر کیا جارہا ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا بالکل صائب ہے کہ اگر4 جولائی1977اور 12اکتوبر 1999کو عدالتیں بیٹھی ہوتیں تو تاریخ مختلف نہ ہوتی؟۔
برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے لارڈ سٹائن نے فیصلہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ’’ پارلیمانی بالادستی کا خالص اور مطلق العنان تصور جو ڈائسی نے پیش کیا تھا وہ تصور عہد حاضر میں بے محل ہے اور نہ ہی یہ تصور آئین کے مزاج سے موافقت رکھتا ہے لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ صرف منتخب نمائندے ہی عوام کی منشا ء کے بلا شرکت غیرے ترجمان ہیں، اس اعتبار سے یہ منتخب نمائندے ریاست کے کسی بھی عضو بشمول عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ عدلیہ بھی عوام کی منشا ء کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ بہرحال یہ بہت پیچیدہ اور گنجلک بحث ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے دی جانے والی دلیلوں میں قدرے کچھ وزن بھی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ادارے اپنی حدو د میں رہیں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا ، امید تو یہی کی جاسکتی ہے کہ پاکستا ن میں آئین اور اس پر عمل کرنے کا کلچر بتدریج جڑ پکڑے تو ہمارے سارے مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔
اب سابق وزیر اعظم و رفقاء نے مبینہ امریکی سازش کاجو بیانیہ بنایا ہے ، اس پر آتے ہیں کہ ہمارا آئین کیا کہتا ہے ، ہماری پارلیمنٹ کیا سوچ اور فیصلہ کرسکتی ہے ۔ عمران خان کی پالیسی بیان میں ابہام ہے ، وہ آزادنہ خارجہ پالیسی کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ وہ مستقبل میں یا موجودہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کیا چاہتے ہیں؟۔ امریکی صدرجو بائیڈن نے تو ان کے دور اقتدار میں ایک بار بھی انہیں فون تک کرنے کی زحمت نہیں کی تو امریکہ کو کیا فرق پڑسکتا ہے۔ یہ بھی چھوڑیں ، صرف یہ بتائیں کہ کیا وہ دو تہائی اکثریت یا دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ سے ’’ معافی ‘‘ نہ مانگنے تک تمام سفارتی تعلقات ختم کردیں گے ، انہیں یہ بھی عوام کو بتانا ہوگا کہ کیا وہ پاکستان سے تمام امریکی اہلکاروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر سفارت و قونصل خانے بند کرادیں گے ۔ انہیں عوام سے وعدہ کرنا ہوگا کہ جب تک امریکہ ساز ش کا اعتراف جرم نہیں کرتا، اس وقت تک اپنے تمام سفارتی مشن کو واپس بلا لیا جائے گا۔ کیا عمران خان امریکہ کو ناپسندیدہ ملک قرار دے کر ان سے تعلقات اس وقت تک منقطع کرلیں گے جب تک امریکہ اپنی ’حرکتوں ‘ سے باز نہیں آجاتا ۔
صرف سیاسی بیانیہ بنانے سے تو کچھ کام نہیں ہوگا ، عوام کو بتانا ہوگا کہ ان کا مستقبل میں لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ گرغلط ہے تو شاید ان پر’’ بیرونی دبائو‘‘ ہوگا ، کیونکہ آزاد خارجہ پالیسی نہیں ، حکومتی کمیشن ناقابل قبول کیونکہ جو حکومت آئی ہے وہ تو ’’سازش ‘‘کے تحت آئی ہے ، پھر رات کو کھلنے والی عدالتیں،اگرکھلی سماعت میں امریکی سازش کی سماعت کریں تو آپ کو منظورہوگا ، اب فیصلہ بھی بتا دیں کہ کرنا کیا ہے ؟ ۔ امریکہ سے علیک سلیک تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اس نے تو’ خطرناک حرکت ‘ کی ہے اور اسی وجہ سے حکومت گری ، اب عوام کو بتائیں کہ امریکہ، ہمارا بھارت سے بھی بڑا دشمن ہے ، انہیں امریکہ مخالف بلاک میں جاکر ’ کھڑا ‘ ہونا ہوگا ۔ کیا آپ اور آپ کے سپورٹرز چاہتے ہیں کہ امریکہ سے’’ جنگ‘‘ کی جائے ؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں