28 مئی یومِ تکبیر۔۔۔۔ یومِ تفاخر——–انیلہ محمود

ملک وقوم کی سربلندی کیلئے بروقت اوربہترین فیصلے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اوریہی فیصلے قوموں کی تاریخ متعین کرتے ہیں اورتاریخ میں ہمیشہ یادرکھے جاتے ہیں۔ان تاریخی دنوں کی یاد تازہ کرنے اور آنے والی نسلوں کوان کی اہمیت سے آگاہ رکھنے کیلئے انہیں نہایت جوش وخروش سے منانے کا اہتمام کیا جاتاہے ،جہاں یہ دن جذبہ حمیت کواجاگر کرتے ہیں وہیں ازلی دشمنوں کے سینوں پرمونگ دلنے کاکام بھی انجام دیتے ہیں ایسا ہی پاکستان کی تاریخ کایادگاردن 28مئی ہے جسے”یوم تکبیر”کے نام سے منایاجاتاہے۔
پاکستان نے 28 مئی 1998کو چاغی کے پہاڑوں میں پانچ دھماکے کیے۔ جمعرات کا دن تھا اور سہ پہر 3 بجکر 40 منٹ پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اس کیساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔بھارت نے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کیلئے خطرات پیدا کر دیئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ جسے روکنے کیلئے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دبا ئوڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔
پاکستان کے اس اقدام کو امریکہ اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف بھارت کی معاندانہ سرگرمیوں کی صورتحال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ اس طرح پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی تیاریاں تھیں۔یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حق کا استعمال کیا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دیکر پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ بھارت کے تکبر اور غرور کا یہ عالم تھا کہ اس کے سائنسدانوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہCTBT بھارت کیلئے نہیں کمزور ممالک کیلئے ہے مگر خدا کو اس ارض وطن پر دشمنان اسلام کے عزائم کی کامیابی کسی صورت گوارا نہ تھی جسکے چپے چپے پر ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں رونما ہونے والے عالمی سطح کے حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنے کا جو خواب دیکھا تھا بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے نے اسے مستحکم ارادے میں بدل کر رکھ دیا اور اس دن سے وہ پاکستان کو اس منزل تک پہنچانے کی راہ پر ڈالنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہو گئے۔
28 مئی 1998کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں جب میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔ عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ امریکہ نے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کیلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر وزیراعظم نواز شریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔ دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر اپنی تاریخی تقریر کی اور انہوں نے بجا طور پر یہ بات کہی کہ ہم نے بھارت کا حساب بیباک کر دیا۔ بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔ دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے۔ 28 مئی یومِ تکبیر ہمارے لیے یومِ تفاخر ہے اور ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔
وطن عزیز کوآج بھی کئی اندرونی وبیرونی چیلنجز کابیک وقت سامناہے۔دشمن جہاں سرحدی خلاف ورزیوں پر کمرکسے ہوئے ہے وہیں وہ ہمیں اندرونی طورپربھی کمزور کرنے کیلئے سازشوں کے تانے بانے بُن کرتیاربیٹھاہے۔موجودہ وقت پھرتاریخی فیصلوں اورعالمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کامتقاضی ۔اندرونی وبیرونی شورشوں سے نمٹنے کیلئے مصلحت پسندی کالبادہ اتارناہوگا۔دنیا کوبتاناہوگاکہ جہاں قومی وملکی مفاد مقدم ہووہاں عالمی پابندیاں کوئی معنٰی نہیں رکھتیں۔عالمی طاقتیں ہوں یاعالمی عدالتیں ملکی وقومی سلامتی سے بڑھ کرنہیں ہوسکتیں۔اللہ پاک نے موجودہ حکمرانوں کے سابقہ دور میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کاشرف عطاکیا تھاتوضروری امر یہ ہے کہ آج بھی حکمران دنیا کے سامنے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے ہی کھڑے ہوکر بات کریں۔اپنے کیے ہوئے فیصلوں کو بیرونی ڈکٹیشن کی نذر نہ کریں کیونکہ حکمرانوں کودوسروں کی ڈکٹیشن پر چل کرقوم کی عزت نفس مجروح کرنے سے شایدوقتی فوائدتو حاصل ہوجائیں مگرتاریخ میں انہیں کبھی باعزت نام سے یاد نہیں کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں