کل کشمیر مشاعرہ زیر اہتمام احیائے ادب حویلی……………ساجد اقبال ساجد

کسی بھی معاشرے پر ادب کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ادب معاشرے کو جامد اور ساکن نہیں رہنے دیتا، بلکہ اسے نئی جہتوں اور نئے افق سے روشناس کرتا رہتا ہے۔ ایک ادیب کے قلم میں وہ طاقت ہوتی ہے جو ایک جنگجو کے ہتھیار میں بھی نہیں ہوتی۔ایک ادیب چاہے تو لفظوں کے امرت سے مردہ قوم کو زندہ کردے۔ اور ایک ادیب چاہے تو الفاظ کے زہر آلود جام پلا کر قوم کو مار ڈالے ۔ علامہ اقبال نے قلندری کے چشمے سے پھوٹتے افکار کو، ادب کا جامہِ سکندری پہنا کر، خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو تسخیر کائنات کا خواب دے دیا۔ یہ ادب کا کرشمہ تھا۔ ادب ایک ایسا سمندر ہے جس میں غوطے کھانے والے ہی رازِحیات کے گوہر حاصل کر پاتے ہیں۔ ادب حال کی بدحالی کا حل دیتا ہے، مستقبل کی مثالی زندگی کے لیے افکار کا سر چشمہ یہی ادب اور ادیب ہیں۔ضلع حویلی، آزاد کشمیر کا ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے، ترقی کی رفتار میں ہاری ہوئی اس دھرتی میں ادب کا دل جیتے ہوئے لوگ بستے ہیں۔ یہ دھرتی چراغ حسن حسرت جیسے قلم کاروں کی دھرتی ہے، یہ دھرتی کرشن چندر جیسے ستاروں کی دھرتی ہے،یہ دھرتی مہیندر ناتھ، تحسین جعفری اور سراج الحسن سراج جیسے علم کے شہسواروں کی دھرتی ہے۔ اگرچہ تقسیم ہند کے بعد علم و ادب کے درخشاں ستارے یہاں پر اپنی موروثی چمک کے ساتھ بزم آرا نہیں ہو سکے، مگر ستاروں کی چمک بادلوں کے چھا جانے سے کب ختم ہوئی ہے۔ضلع حویلی کی نمائندہ ادبی تنظیم “احیائے ادب حویلی” ہے، جس کا قیام 27 جنوری1987 میں عمل میں آیا ۔اس تنظیم کا احیائے نو 27 مارچ 2018 کو عمل میں لایا گیا۔ مشکل حالات و واقعات کے باوجود تنظیم نے اپنا ادبی سفر مستقل مزاجی سے جاری رکھا ہوا ہے،اور یہ عزم لے کر آگے بڑھ رہی ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔14 مئی 2022 بروز ہفتہ کل کشمیر مشاعرے کا انعقاد اس تنظیم کی علمی ادبی سرگرمیوں کے تسلسل کا ایک حصہ تھا۔جس میں کشمیر بھر سے نامور شعرا کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی۔اس مشاعرے کی بازگشت سنتے ہی علمی ادبی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔مشاعرے میں شرکت کی خواہش بڑھتے بڑھتے جنوں کی حدوں تک جا پہنچی۔ دن گن گن کر گزارے گئے، اور آخر وہ صبح طلوع ہو ہی گئی جس دن سورج کی روشنی کو علم و ادب کی روشنی کا سامنا کرنا تھا۔تنظیم سے وابستہ مقامی شعرا اور منتظمین 6 گھنٹے کے مشاعرے کے لیے 6 دنوں سے مصروفِکار تھے، آج کی صبح جاوید ہیوں گیسٹ ہاوس میں مشاعرہ منعقد کروانے کے انتظامات کو اختتامی شکل دینی تھی، جوش اور جذبے کے ساتھ انتظامات مکمل ہوئے،مہمانوں کی آمد شروع ہوئی، کشمیر کے طول و عرض سے شعرا آتے گئے، رونقیں بڑھتی گئیں، جذبات مچلتے گئے، آنکھوں میں خوشیوں کے چراغ چمکتے گئے۔مہمانوں کی آمد پر اللہ کی رحمتوں کے نزول کا احساس ہوتا رہا، دل شکرگزار اور جبینیں سجدہ زار ہوتی رہیں، کہ حویلی میں معزز اور نامور شعرا کی آمد ہو رہی تھی۔مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں راقم الحروف اپنی تنظیم احیائے ادب حویلی اور پورے ضلع حویلی کی طرف سے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔جو مشاعرے میں تشریف لائے اور اپنے قیمتی وقت سے چند گھڑیوں کو ہمارے نام کر کے ہمارے دلوں کو اپنے نام کر لیا۔متذکرہ بالا کل کشمیر مشاعرہ محی الدین بٹ اور مختار احمد ہاشمی کی یاد میں منعقد ہوا، مشاعرے کی صدارت ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے عظیم شاعر جناب پروفیسر( ر) شفیق راجا نے کی۔مشاعرے کے پہلے حصے کی نظامت جناب سید احسان الحق گیلانی (صدر احیائے ادب حویلی)نے کی، دوسرے حصے کی نظامت حسیب احمد محبوبی (معتمد نشرو اشاعت احیائے ادب حویلی)نے کی۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت آیات کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت سلمان احمد مانی (نائب صدر تنظیم ھذا) نے حاصل کی۔نعت پیش کرنے کا شرف خواجہ اعجاز شاہین کے حصے میں آیا ۔اس کے بعد مسعود گلزار ہاشمی نے محی الدین بٹ اور مختار ہاشمی کا جامع تعارف کروایا ۔بزم کے پہلے حصے میں میزبان شعرا صداقت دانش، بابر راٹھور، منزہ اقبال، انور شاہ بخاری، عدیل گیلانی، ساجد اقبال، تابش امیر ،شان قریشی، عطا راٹھور، احسان گیلانی، حسیب احمد محبوبی، سلمان مانی اور رضوان حیدر بخاری صاحب نے اپنے اشعار پیش کیے اور خوب داد سمیٹی۔ اس کے بعد مشاعرے کے دوسرے حصے کا آغاز ہوا جس کی نظامت حسیب احمد محبوبی نے کی۔ عاصم سلیم بٹ،سید محمد علی،زبیر حسن زبیری، مشتاق بخاری، کیف زبیری شہباز گردیزی اور پروفیسر شفیق راجہ نے باغ کی نمائندگی کی اور دل میں اترتے شعر سنائے،راولاکوٹ سے فاروق صابر، لیاقت شعلان مظفرآباد سے ظہور منہاس،ننکانہ سے احمد سلمان حامدی،میرپور سے مصطفی جاذب، عابد حسین عابد،علی نورد،شمس الحق شام اور طاہر مجتبی ،بھمبر سے شہباز حبیب،عباس پور سے جاوید سحر،پلندری سے ڈاکٹر ماجد محمود کوٹلی سے احسن سلیمان اور حماد بلال نے مشاعرے میں شرکت کی، خوب اشعار پڑھے، خوب داد سمیٹی۔مہمان شعرا کے اشعار نے ایک سماں باندھ دیا، جوں جوں بزم آگے بڑھتی رہی، اشعار کا جادو سر چڑھ کے بولتا رہا،ہاتھ داد کے لیے ہر ہر مصرع پر بلند ہوتے رہے،،لب واہ واہ کے پرجوش اور مسرت کن نعروں سے لبریز رہے، دل مسرور ہوتے رہے،عقلیں نئے افق کا ادراک کرتی رہیں اور ذوق تسکین پاتے رہے۔ الفاظ کے جام نے قلب و خرد کی کیفیات کو عجیب لذت سے آشنا کر دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا ہم اک نئے جہاں میں آ گئے ہیں ، اور ایک نیا جہاں ہم میں آباد ہو گیا ہے۔ مشاعرے سے متعلق ایک اور خوش کن بات یہ تھی کہ تقریبا تمام شعرا نوجوان یا جوان کی صف میں آتے تھے، اس کم عمری کے باوجود ان کے اشعار کی عمریں بہت طویل محسوس ہوتی تھیں۔ کلام میں پختگی، برجستگی، عمدہ خیالی، جذبات کی حقیقی مگر دلنشین عکاسی، حالات حاضرہ سے ہم آہنگی اور سبق آموزی لائق صد تحسین و آفرین تھی ۔ لب و لہجہ اور اشعار کی ادائیگی اس قدر دلفریب تھی کہ ایک ایک شعر پر داد کے لیے دل نکال کر رکھنے کو جی کرتا تھا۔وقت اپنی عادت سے مجبور گزرتا گیا، یہ سوچے بنا کہ کتنی حسین محفل جمی ہے، یوں محفل اختتام پذیر ہوئی، محفل کے اختتام پر مختار احمد ہاشمی ، غلام محی الدین بٹ اور غلام یسین تبسم کی مغفرت کے لیے خصوصی دعا کی گئی، کشمیر کی آزادی اور وطن عزیز کی فلاح و بہبود اور سرفرازی کے لیے بھی دعائیں گی گیئں۔مشاعرے کے اختتام پر تمام شرکا محفل کو عشائیہ دیا گیا، جہاں سے مہمانوں کو الوداع اور حسین یادوں کو خوش آمدید کہہ کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔مشاعرے میں پیش کیے گئے اشعار میں سے چند ایک آپ کے ذوق کی نذر۔
ریت مٹھی میں لے کے سوچتے ہیں
تھام رکھی ہے کائنات تمام
پروفیسر شفیق راجا
شکریہ، بندِ قبا کھول کے بیٹھی دنیا
معذرت، دل ترے انداز پہ مائل نہ ہوا
مصطفی جاذب
اجالے بانٹتا ہوں روشنی تقسیم کرتا ہوں
پراگندہ سماجوں کی نئی تنظیم کرتا ہوں
فاروق حسین صابر
مرے دل کے بت کدے میں کئی ایسے بھی صنم تھے
جنہیں توڑتے ہوئے خود میں ہزار بار ٹوٹا
ڈاکٹر ماجد محمود
اس ایک بات پہ اٹکی ہوئی ہے سانس میری
میں مر گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا
سید شہباز گردیزی
اس سے پہلے کہ لوگ مجھ پر ہنسیں
تو مری جان ان سے بہتر ہنس
علی نورد
وہ تھک گئی تھی بھیڑ میں چلتے ہوئے ظہور
اس کے بدن پہ ان گنت آنکھوں کا بوجھ تھا
ظہور منہاس
ہمارے ہاتھ کی ریکھا میں صرف ہجرت ہے
ہمارے ساتھ سفر پر اگر گئے تو گئے
جاوید سحر
انا پرست شخص تھا سو یوں منا لیا گیا
گلِے نہیں کیے گئے، گلے لگا لیا گیا
احسن سلیمان
وہ صفائی پسند ہے اتنا
پانی پی کر بھی کلی کرتا ہے
عابد محمود عابد
اس نے چلو بھرا تھا چشمے سے
مچھلیاں جھوم اٹھیں تھیں پانی میں
سلمان احمد مانی
پرواز کی سکت نہ سہی تجربہ تو ہے
ممکن ہے کام آئیں کہیں پر بریدہ لوگ
حسیب احمد محبوبی

اپنا تبصرہ بھیجیں