اتفاق اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال—–تحریر سلطان روم

میں بحیثیت ایک کالم نگار یا تجزیہ نگار بھی کہہ سکتے ہیں جس کا کام چیزوں کو باریکیوں سے دیکھنا اور اس میں اچھے برے کی تمیز کرنا ہے.
میرا نام سلطان روم ہے اور میرا تعلق ملاکنڈ رنگ مالا سے ہے۔ آج سے تقریبا 5 سال پہلے میں اپنے والد کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے کر گیا تھا کیونکہ رنگ مالا کے ہسپتال میں ان کا علاج ممکن نہیں تھا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں میرے والد کا علاج کیا گیا لیکن وہاں پر ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بہرحال مشکلات ایک سائیڈ پر رکھ کر ہم اپنے والد کے لیے پریشان تھے. انکے علاج کے لئے ہمیں وہیں رکنا پڑا ، ہم کبھی ڈاکٹر کی پیچھے بھاگتے تو کبھی نرس اور کبھی پیرامیڈیکس کے پیچھے. وہاں پر مریضوں کے بیٹھنے کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا اوپر سے چند ڈاکٹروں اور کلاس فور ملازمین کا رویہ انتہائی نامناسب اور تکلیف دے تھا. ان بارہ دنوں میں ڈاکٹر حضرات جو اپنے آپ کو قوم کا مسیحا کہتے ہیں آئے روز احتجاجی جلوس نکالا کرتے تھے اور ہڑتال پر رہتے تھے. میرے والد کا جو علاج دو دنوں میں ہونا تھا اس پر بارہ دن لگ گئے. ڈاکٹروں کی ہڑتال ختم ہوتے ہی کلاس فور کی ہڑتال اور اسی طرح نرسز کی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران ہمارے والد کے بیڈ کے پڑوس میں زیر علاج مریض کے پیسے چوری ہو گئے جوپیسے وہ اپنے علاج کے لئے لائے تھے وہ چوری ہو گئے. سیکورٹی کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا. ایک ایک ٹیسٹ کے رزلٹ کے لیے ہمیں کئی دفعہ لیبارٹری کے چکر لگانے پڑتے تھے۔
میڈیکل اور پیرا میڈیکس سٹاف کی ہڑتالوں کا بنیادی مقصد تنخواہوں میں اضافہ تھا لیکن انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ یہاں پر جتنے بھی غریب مریض داخل ہیں وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے. بہرحال بارہ دنوں بعد ہم اپنے گھر واپس آ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف سے ہماری جان چھوٹ گئی.
*ناقابل دید واقعات تقریبا پانچ سال بعد*
پانچ سال بعد جب کہ اب میرے والد کا انتقال بھی ہو چکا ہے اور میں نے اپنی گریجویشن بھی مکمل کر لی ہے۔ مجھے پانچ سال بعد ایک دفعہ پھر لیڈی ریڈنگ ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔
اپنے ذہن میں وہی پرانے پانچ سال پہلے کے وسوسے لیے جب میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچا تو سب سے پہلے ہمیں ایمرجنسی جانا پڑا کیونکہ میرے بڑے بھائی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا. جیسے ہی ہم ایمرجنسی پہنچے تو وہاں پر کلاس فور ملازمین نے ہمارے مریض کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کو سٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی کے اندر لے گئے۔ ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ وہ ہم سے رقم کا تقاضہ کریں گے لیکن ہم ان کا اخلاق دیکھ کر حیران رہ گئے اور جب ہم نے پیسوں کے آفر کی تو انہوں نے ہماری پیشکش رد کر دی اور کہا کہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے. آپ یقین جانیے کی یہ ساری باتیں کہانیوں میں سنی ہوئی تھیں لیکن حقیقت میں اب دیکھنے کو ملیں. وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے ہمارے ساتھ انتہائی اخلاق سے بات کی اور ضروری معلومات لینے کے بعد پھر مریض کا تفصیلی معائنہ شروع کردیا. ہم یہ سب دیکھ کر حیران و پریشان کھڑے تھے کہ کیا پاکستان کے کسی ہسپتال میں ایسا سسٹم بھی موجود ہے جس سے مریض کی آدھی تکلیف ان کے بہترین رویے سے ہی ختم ہو جاتی ہے اور یہ وہی پانچ سال پہلے والا لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہے۔ ہمارے مریض کے کچھ ٹیسٹ لکھے گئے جنکے نمونے لےکر لیبارٹری بھجوا دیئے گئے اور جب ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ہم اس کا رزلٹ کہاں سے لینے جائیں تو انہوں نے ہمیں مزید حیران کیا کہ آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے یہ ہمارے کمپیوٹر لیبارٹری کیساتھ منسلک ہیں اور یہ اسکرین پر ہمیں موصول ہو جائیں گے حتی کہ آپ اپنے گھر سے بھی آن لائن ٹیسٹ کی رپورٹس کو چیک کر سکتے ہیں. اسی طرح ہمارے ایکسرے بھی ہوئے اور وہ بھی اسکرین پر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے۔ آپ یقین جانیے کہ آدھے گھنٹے کے اندر ہمارے مریض کے تمام ٹیسٹ ایکسرے اور تمام نتائج ڈاکٹر کے سامنے تھے اور یہاں پر مزے کی بات یہ تھی کہ بیس روپے کے پرچی کے علاوہ ہم سے کوئی پیسے نہیں لے گئے. معائنہ اور ٹیسٹوں کی روشنی میں ڈاکٹر نے ہمیں ایک دن کیلئے وارڈ میں داخل کیا جس کے لیے 120 روپے داخلہ فیس لیا گیا.
وارڈ میں بھی ڈاکٹرز اور نرسسز کا رویہ انتہائی بہترین اور شفقت والا تھا۔ صفائی کا اتنا بہترین انتظام تھا جو کہ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ وارڈ میں ہمارے مریض کو کھانا اور فروٹ بھی مفت فراہم کیا گیا. ہم گھر سے دو تین بندے مریض کے ساتھ گئے تھے جس کی وجہ سے سیکیورٹی نے انتہائی احترام کے ساتھ ہمیں کہا کہ ایک مریض کے ساتھ ایک تیماردار کی اجازت ہے. جس پر ہم نے ان سے معذرت کی اور ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے مریض کے ساتھ ایک بندہ چھوڑ کر ہم باہر نکل آئے. باہر نکل کر جہاں پر پہلے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں کوئی انتظارگاہ نہیں تھی اب مریضوں کے تیمار داروں کے لیے صاف ستھرے ماحول میں بنائے گئے ہٹس موجود تھے۔ ان ہٹس میں مریضوں کے تیمارداروں کے لیے پنکھے لگائے گئے تھے تاکہ گرمی سے ان کو بچایا جا سکے۔
ہم نے بہترین ماحول میں اپنے مریض کے ساتھ وہاں پر ایک دن اور ایک رات گزاری اور اس کے بعد ہمیں گھر رخصت کر دیا گیا۔
*اس تحریر کا مقصد*
جیسے کہ آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کچھ لوگ مختلف اداروں کے خلاف غلط خبریں پھیلاتے ہیں جو کہ اداروں کے ساتھ اور اس ملک کے ساتھ غداری کے مترادف ہے اور جو لوگ یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں ان سے زیادہ وہ لوگ قصور وار ہے جو بغیر تحقیق کے باتیں آگے شیئر کرتے ہیں۔ میری ان لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ ایسی غلط افواہ نہ پھیلا یں کیونکہ اس سے نقصان غریب کا ہوتا ہے۔ وہ یہی سمجھتا ہے اور ان باتوں پر اعتبار کر لیتا ہے اور بجائے سرکاری ہسپتالوں کے وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جس کے لئے وہ قرض لیتے ہیں اور قرضوں کی وجہ سے ساری عمر پریشانی میں گزارتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے بڑا ظلم ان کے ساتھ کوئی اور نہیں کر سکتا. یہ بات بھی درست ہے کہ بعض جگہوں پر اسپتالوں اور اداروں میں کمزوریاں ہونگی لیکن اس سے زیادہ وہاں پر اچھائیاں بھی ہونگی جو ہمیں نظر آنی چاہیے۔
میں نے وہاں رہنے کے دوران وہاں کے ملازمین سے ان تمام تبدیلیوں کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جس پر بتایا گیا کہ یہاں کے سربراہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں اور اس کے ساتھ جو دیگر عملہ ہے وہ خیبر پختونخوا سے بہترین لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ہے جو کہ بورڈ آف گورنرز کے احکامات کے مطابق اس ہسپتال کو نظم و ضبط کیساتھ چلا رہے ہیں۔
میں سلام پیش کرتا ہوں اس ادارے کے سربراہ کے ساتھ ساتھ ان تمام افراد کو جنہوں نے اس ہسپتال کو ایک عظیم ہسپتال بنانے میں تمام تر کوشش جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ہمیں اپنے ہسپتالوں اپنے اداروں پر فخر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے یہ پاکستان ہمارا ہے اس کے ادارے ہمارے ہیں اور ہم اس ملک کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔
*لیڈی ریڈنگ ہسپتال زندہ باد پاکستان پائندہ باد*

اپنا تبصرہ بھیجیں