میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لاؤں گا،عمران خان

اسلام آباد(سی این پی)پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لاؤں گا-تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ‘ رجیم تبدیلی کی مبینہ سازش’ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لاؤں گا کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کی، جب میرٹ کو نظرانداز کرتے ہیں تو آپ حق مارتے ہیں، سوچا تھا جب وقت آئے گا تب دیکھوں گا کس کو آرمی چیف لگانا ہے۔عمران خان نے کہا کہ خرم دستگیر نے کہا آرمی چیف عمران خان اپنا رکھوانا چاہتا تھا، اس کی بات کا کیا مقصد تھا؟ کیا ان کو اپنی مرضی کا آرمی چیف چاہیے تھا؟ اللہ گواہ ہے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ نومبر میں کس کو آرمی چیف بنانا ہے، سوچا تھا جب وقت آئے گا تب دیکھوں گا کس کو آرمی چیف لگانا ہے نواز شریف کو کیوں آرمی چیف کے معاملے پر مسئلہ تھا، کیوں نواز شریف ہمیشہ اپنی پسند کا آرمی چیف لے کر آیا، اس لیے کہ اس نے اتنی محنت سے چوری کے ذریعے پیسہ اکٹھا کیا تھا اور اسے فکر ہے کہ پیسہ کیسے بچے گا، انھیں ڈر فوج سے ہوتا ہے کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے پاس انکی چوری کی رپورٹ ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کوئی ضرورت نہیں کہ اپنا آرمی چیف لائے، میں نے چوری نہیں کی اس لئے فکر نہیں، میں 26 سال پہلے کہتا تھا کہ نواز شریف اور زرداری چور ہیں، ان دونوں کے مفاد ایک ہیں، مجھے شک نہیں تھا کہ جب بھی میں پاور میں آیا تو یہ دونوں اکٹھے ہوجائیں گے۔عمران خان نے کہا کہ رجیم چینج جب بھی ہوتا ہے وہ ممالک کو استعمال کرتے ہیں، امریکا رجیم چینج اپنے مفاد کیلئے کرتا ہے ہمارے لئے نہیں، کیا ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم امریکا کو اڈے دیں، ان سب کو پتا ہے کہ ہم انکی جنگ میں استعمال ہوئے تھے، جب انہوں نے اپنی فوج وزیرستان بھیجنا شروع کی تو میں نے انہیں سمجھایا، میں ان کو سمجھاتا تھا تو مجھےطالبان خان کہتے تھے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ قائداعظم نے 1948 میں کہا تھا کہ ہم کشمیریوں کیساتھ کھڑے ہونگے، لیکن امریکا چاہتا ہے ہم اسرائیل کو قبول کریں اور ہندوستان کو مقامی تھانیدار قبول کریں، اسرائیل تسلیم کرنے کا مطلب ہے فلسطینیوں کے حق نہیں اور کشمیر کے بھی نہیں، بھارت سے تعلقات ٹھیک کردیئے تو اس کا مطلب ہے کشمیر کا ایشو ختم ہوگیا اور ہم پاکستان کا نظریہ دفن کررہے ہیں کہ امریکا ناراض نہ ہو، کیا ہمیں ٹشو پیپر کی طرح ایسے استعمال ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے چند سال نکال دیں تو ہم آج تک غلامی ہی کرتےآئے ہیں، حسین حقانی اور نجم سیٹھی چاہتے ہیں کہ آرام سے غلامی کرو، کیا اس سے پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا، کیا کوئی گارنٹی کرسکتا ہے کہ ملک ترقی کرجائے گا، نواز دور حکومت میں کشمیر کا معاملہ تو ختم ہوگیا تھا، نوازشریف بھارت جاتا تھا تو حریت رہنماؤں سے ملتا بھی نہیں تھا، لیکن ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں