امریکہ کی عادت یا مداخلت —— قادر خان یوسف زئی

تاریخ اور جغرافیہ کے عناصر ترکیب نے امریکہ کو جو مزاج اور کردار عطا کردیا ہے ، وہ ایک دلچسپ مطالعہ ہے ، امریکہ کو آباد کرنے میں تین براعظموں نے حصہ لیا، ایک خود امریکہ ، دوسرا افریقہ اور تیسرا یورپ۔ امریکہ کے اصلی باشندوں کو یورپی آبادکاروں نے قریب قریب بیدخل کیا، امریکہ کی غالب آبادی ان یورپی آبادکاروں کی اولاد پر ہی مشتمل ہے ، جنہوں نے نئی دنیا کی جنت میں گھر بنانے کے لیے اپنا آبائی وطن کو خیر آباد کہا، تارکین وطن کے یہ ریلے امریکہ کے مشرقی ساحل پر اترتے اور مرتے مارتے، مقامی باشندوں کو دھکیلتے ، جنوب اور مغرب کی طرف بڑھتے گئے ، نئی دنیا بسانے کے لیے ان آباد کاروں کو محنت ، مشقت اور خدمت کے لیے’’شودروں‘‘کی ضرورت محسوس ہوئی،یہ ضرورت اِن کے بھائی بندوں نے پوری کی ،جو یورپ سے نکل کر افریقہ کی تاریکی میں ٹامک ٹویئے مارنے لگے تھے ، انہوں نے افریقہ کے حبشیوں کو غلام بنایا اور ان غلاموں کو امریکہ کی منڈی میں لے جا کے فروخت کیا ، غلاموں کی یہ تجارت یورپ اور امریکہ کی تاریخ کا گھنائونا باب ہے ، غلاموں کی رسد اور فروخت کے سلسلے کی ہر کڑی ایسی ہے جس پر تہذیب اور انسانیت ہمیشہ ماتم کرتی رہیں گی۔
غلاموں اور مقامی باشندوں سے جو مذموم سلوک اہل امریکہ نے روا رکھا اس سے ان کا مزاج بڑا مسموم ہوگیا۔ آج بھی امریکہ میں جاکے ایک عام امریکی کو دیکھاجائے تو اس کا نداز کچھ اس قسم کا ہوگا ، اچھا آپ فلاں ملک کے رہنے والے ہیں ، آپ کا مذہب فلاں ہے ، آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں ، ہم تو یوں ہیں ، شاید آپ کے نزدیک ہم غلطی پر ہوں ، لیکن ہمارا تجربہ کچھ اس قسم کا ہے ، آپ ہمیں دیکھ کے خواہ مخواہ راستہ نہ بدلئے، ہمارے تجربے سے البتہ آپ استفادہ کرسکتے ہیں تو ضرور کیجئے ، ہم آپ سے نہیں الجھتے ، آپ ہم سے نہ الجھئے ،کا مرنجاں مرنج اصول امریکہ مزاج میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے ۔
دو عالمگیر جنگوں نے امریکی قوم کو اپنے خول سے نکالنے میں بڑا کام کیا ، جنگ عظیم اول یورپ سے شروع ہوئی اور امریکہ سے دور دور رہی ، اس جنگ میں بظاہر امریکہ کے لیے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن بالآخر اسے اس جنگ میں کودنا پڑا ، لیکن جنگ کا خاتمہ ہوا تو امریکہ پھر سے سکڑ کر اپنے خول میں جانے لگا ، وہ جمعیت اقوام تک میں شرکت سے محترز رہا ، اس کا خول دوسری جنگ نے توڑا ۔ اس جنگ میں بھی وہ آسانی سے شریک نہیں ہوا ، لیکن جب ہوگیا تو پھر اس نے واپسی کا نام نہیں لیا۔
دوسری جنگ کے دوران وہ عالمی طاقت ہی نہیں بن گیا بلکہ عالمی قویٰ میں سر فہرست آگیا تھا ، ایٹم بم جیسا تباہ کن ہتھیار اس نے بنا بھی لیا تھا اور اسے استعمال بھی کرچکا تھا ، اب اس کا سب سے بڑا حریف یعنی روس بھی اس کا مد مقابل نہیں تھا ، یوں نظر آنے لگا کہ دنیا امریکہ کے قدموں میں ہے ، دنیا کی نظریں خود بخودامریکہ کی طرف اٹھنے لگیں چونکہ امریکہ اٹھارویں صدی میں برطانوی استعمار کے خلاف لڑکے آزاد ہوا تھا اور آزادی پسند تھا،اس لیے آزادی کی طلب گار قومیں اس کی مثال سے سبق بھی سیکھتی اور اس سے اخلاقی تائید کی متمنی بھی ہوتیں تھیں ، یہ تائید انہیں ملتی تھی اور اسے بڑا غنیمت سمجھا جاتا تھا کہ ایک سفید فام قوم ، سفید یورپی استعمار کے خلاف ہے ۔یہ نو آزاد ممالک جو غلامی سے گلو خلاصی کرانے کے لیے امریکہ کی اخلاقی امداد کے متمنی ہوا کرتے تھے، قوم تعمیر و ترقی سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے امریکہ جیسی دولت مند اور صف اول کی ترقی یافتہ قوم سے مادی امداد کے طلب گار ہوئے ، ان تقاضوں نے بین الاقوامی امداد و تعاون کا تصور ہی نہیں ابھارا اسے عملاً متشکل بھی کیا۔
جنگ عظیم سے وہ یوں ابھرا تھا کہ اس کی ساری جیبیں ایٹم بم جیسے غیر معمولی طور پر تباہ کن ہتھیاروں سے بھری پڑی تھیں ، یہ ہتھیار کسی اور قوم کے پاس نہیں تھے، اس لیے طاقت میں کوئی اور قوم امریکہ کے ہم پلہ نہ تھی،لیکن یہ طاقت چین میں دھری کی دھری رہ گئی اور امریکہ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ، اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ چین کو اس کا مزہ چکھائے گا ، لیکن اس کی حالت عجیب تھی ، استعمار کا اسے کوئی ایسا تجربہ نہ تھا ،اس کے استعماری دوست ہالینڈ ، فرانس اور برطانیہ جو دنیابھر میں چھائے ہوئے تھے ، پسپا ہو رہے تھے ، دیکھتے دیکھتے ایشیا اور افریقہ ان سے خالی ہوگئے ،یورپ لڑائی سے تباہ ہوگیا تھا اور اس کا مشرقی حصہ روس کے تصرف میں چلا گیا تھا ۔ یہ خطرہ یقینی تھا کہ باقی یورپ میں روس کا اثر دخل بڑھ جائے گا ، امریکہ کو سب سے زیادہ پریشان روس نے کیا ، اب اسے روس کی طرف سے ایک حد تک اطمینان تو ہے لیکن روس کی جگہ چین نے لے لی ہے اور امریکہ کی مصیبت جوں کی توں ہے۔روس دوسری جنگ سے تباہ حال نکلا تھا لیکن چند سالوں میں اس نے ایک عالم کو حیرت میں ڈال دیا ، اس نے تباہی کے وہ سارے خوفناک سے خوفناک ہتھیار بنا لئے جو امریکہ نے بنا رکھے تھے ، اس نے امریکہ کی اجارہ داری ہی ختم نہیں کی بلکہ اس پر سبقت بھی لے گیا۔
جزیرہ فارموسا ( تائیوان) کے غبارے کو پھلا پھلا کر چین کے برابر کرنے کے لیے امریکہ وہ سب کچھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے جس سے چین کمزور ہوجائے۔غیر ملکی مداخلت سے امریکہ نے جو سبق سیکھا ہے وہ تجربوں سے زیادہ غلط ہے ، وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسے ایسا ملک چاہیے جہاں کی حکومت مستحکم ہو اور چین کے خلاف ہو تاکہ اس پر کاری ضرب لگاسکے، ایسا ملک اسے بھارت کی شکل میں دکھائی دیا ، وہ شروع ہی سے اس کے لیے کوشاں رہا ہے کہ بھارت میں اسے قدم جمانے کا موقع مل جائے۔آئی ٹو یو ٹو کا نیا اتحادبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، جس کا مقصد واضح ہے۔ ایران ، پاکستان ، افغانستان اور چین کی ڈوریں کسنے کے لیے امریکہ ، بھارت اور اسرائیلی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکی مداخلت و سازشوں پر اس کے حلیف ممالک اپنے رویئے پر نظر ثانی کررہے ہیں۔زمانے کا مزاج اس سرعت سے بدل رہا ہے کہ طاقت کے زور سے ضمیر انسانیت کو زیادہ دیرتک دبائے نہیں رکھا جاسکتا

اپنا تبصرہ بھیجیں