پاکستان اور معاشی خودکفالت کی منزل……..پروفیسر نعیم اختر عباسی

قارئین کرام جدید دور میں پاکستان کو بہت سارے چیلینجز کا سامنا ھے ان میں سب سے بڑا چیلنج خراب معیشت کی بحالی اور خود کفالت کی منزل ھے آئیے دیکھتے ھیں کہ معاشی خودکفالت کی منزل طے کرنے کے لئے ھم کس حد تک کوشاں ھیں اور معاشی خودکفالت کی منزل حاصل کرنے کے لئے ھم بحیثیت قوم کیا کردار ادا کر سکتے ھیں-
طویل عرصے سے ھم دیکھ رھے ھیں کہ پاکستانی معیشت بین الاقوامی اداروں کے قرضوں میں جکڑی ھوئی ھے اور ھر حکومت اقتدار میں اتے وقت معیشت کی بہتری کا نعرہ لگاتی ھے لیکن اقتدار میں انے کےبعد پھر سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے انھی کی شرائط پر قرضے لے کر خزانے پر مزید بوجھ بڑھا کر اقتدار سے چلی جاتی ھے اور اس کا خمیازہ پوری قوم مہنگائی کی شکل میں بھگتی ھے اور عوام میں خوشحالی کے بجائے بدحالی فروغ پاتی ھے- حالات و واقعات کا تسلسل سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات سمجھ اتی ھے کہ پاکستانی حکومتوں کے پاس معاشی خودکفالت کا طویل المیعاد کوئی منصوبہ ھی نہیں ھے کہ جس پر کام کر کے پاکستانی معیشت کو بحال کر کے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور اس پر مستزاد یہ ھے کہ پاکستان میں ایک پائیدار سیاسی نظام کا قیام اج تک نہ ھو سکا ھر حکومت اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے ایک غیر یقینی صورتحال میں اقتدار حاصل کرتی ھے اور تھوڑے ھی عرصے میں ایک سکتہ اور جمود کے عالم میں اقتدار سے الگ کر دی جاتی ھے یہی وجہ ھے کہ معاشی طور پر خود کفیل ھونے کا کوئی منصوبہ نہ پنپ سکا-
قارئین کرام
کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ھے اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال ھے لیکن ھمارے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ھم ان قدرتی وسائل سے استفادہ نہیں کر پاتے -یہ بڑی حیرانگی کی بات ھے کہ ایک زرعی ملک ھونے کے باوجود پاکستان کم و بیش ھر دوسرے سال اٹا اور چینی کے بحران کا شکار ھو جاتا ھے حالانکہ پاکستان میں گندم , کپاس اور کماد بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ھے – آئیے اج ھم پاکستان کے قدرتی وسائل اور ھماری ناقص منصوبہ بندی کا تنقیدی جائزہ لیتے ھیں
(1) پانی: پاکستان میں قدرتی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت پانی کے وسائل سے مالامال ھے ملک کے اندر بہتے دریاوں اور شمالی علاقوں کے برفانی گلیشیئر ھمارے لئے پانی کا بڑا ذریعہ ھیں ھر سال مون سون اور برسات کے موسم میں لاکھوں کیوسک پانی یا تو سمندر میں چلا جاتا ھے یا پھر سندھ کے زیریں علاقوں میں طغیانی کے باعث سیلاب کی شکل میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچاتا ھے اور زرعی زمینوں کو تباہ کر دیتا ھے ضرورت اس امر کی ھے کہ ملک میں مزید چھوٹے ڈیم تعمیر کئے جائیں اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو قابل عمل بنایا جائے تا کہ فصلوں کو پانی ملے اور کاشتکاری میں اضافہ ھو جو یقیناً معاشی خودکفالت کی طرف ایک اھم قدم ھو گا- ڈیموں کی مزید تعمیر سے پن بجلی کے منصوبے شروع کئے جا سکتے ھیں جس سے ملک میں پیدا انرجی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ھے- سولر انرجی کے پلانٹس بھی مقامی سطح پر انرجی کے بحران پر قابو پانے کیلئے معاون و مددگار ھو سکتے ھیں-
(2) زرعی زمینیں:
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ھے جہاں پر قابل کاشت زرعی رقبہ روزانہ کی بنیاد پر تیزی سے کم ھو رھا ھے -ھمارے ملک میں لینڈ مافیا اتنا طاقتور ھو چکا ھے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے قرب وجوار میں زرعی اور قابل کاشت رقبہ خرید کر رہائشی کالونیاں اور پلاٹینگ ھو رھی ھے حکومتوں کو اس چیز کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور رھائشی کالونیاں اور پلاٹینگ زرعی رقبوں پر نہ کی جائے اس سلسلہ کو روکنے کے لئے کسانوں کو مزید مراعات اور سہولیات دی جائیں تا کہ وہ زرعی اور قابل کاشت رقبہ فروخت نہ کریں- زرعی پالیسی کی بنیاد ” کسان خوشحال ملک خوشحال” کی بنیاد پر بنائی جانے ملکی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے کسانوں کے لئے آ سان اقساط پر ٹریکٹر کھادیں زرعی آ لات٫ زرعی ادویات کے اشتہارات اور کاشتکاری کے جدید طریقوں کے بارے میں دستاویزی پروگرام نشر کئے جائیں بلاشبہ یہ معیشت کی بحالی کے لئے دوسرا اھم قدم ھو گا
(3) جنگلات کے وسائل:
ھمارے ملک کے طول وعرض میں بڑے اور گھنے جنگلات پائے جاتے ھیں جو ملک میں کارامد لکڑی کا بڑا زریعہ ھیں پاکستان میں حکومتی سطح پر منظم شجرکاری کو فروغ دیا جائے اور جنگلات کے رقبے کو ھر لحاظ سے محفوظ بنایا جائے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں حکومتی سطح پر سات آٹھ سالہ پروگرام کے تحت ایک بڑی شجرکاری مہم شروع کی گئی تھی جو بہت کامیاب رھی اور اس میں عام لوگوں اور سکول کالج کے بچوں نے بھی حصہ ڈالا تھا بدقسمتی سے پاکستان میں ھر سال سینکڑوں ایکڑ جنگلات نذر آتش ھو جاتے ھیں ابھی حال ھی میں بلوچستان٫ تورغر٫ مارگلہ کی پہاڑیوں اور ھریپور کے ملحقہ کے جنگلات کو اگ سے نقصان پہنچا جو ایک بڑا قومی نقصان ھے حکومتی سطح پر جنگلات کی حفاظت اور اگ سے بچاؤ کی تدابیر وقت کی ضرورت ھیں- جنگلات سے لکڑی کے حصول سے فرنیچر کی صنعت کو فروغ حاصل ھو گا اور معیشت ترقی کرے گی
(4) ڈیری اور لائیو سٹاک:
پاکستان ایک زرعی ملک ھونے کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی ایک بڑی منڈی کا حامل ملک ھے کسانوں کی طرح مویشی پال لوگوں کو جدید ترغیبات اور سہولیات کی ضرورت ھے کہ وہ اسانی سے بڑے مویشی پال سکیں مرغبانی کی صنعت اور گوشت کی ترسیل کا عمل جدید طریقوں کا تقاضا کرتا ھے ان ترغیبات سے عوام الناس کی بڑی تعداد مستفید ھو کر انفرادی طور پر بھی خوشحال اور مالی لحاظ سے مستحکم ھو سکتی ھے پچھلے دور حکومت یعنی عمران خان کی حکومت میں عمران خان نے مختلف مواقع پر عوام کو مرغی انڈے بھینسوں اور کٹوں اور بچھوں سے عوام الناس کو اس صنعت کے فروغ کا شعور دیا مگر بدقسمتی سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اس پر شدید تنقید اور مذاق اڑایا گیا لیکن بہرحال ڈیری اور لائیو سٹاک کی اھمیت اپنی جگہ اھم ھے-
(5) مچھلی اور مچھیرے( Fisheries):
پاکستان کی ساحلی پٹی اورماڑہ اور پسنی سے شروع ھو کر مکران کے ساحل تک پھیلی ھوئی ھے یہاں کے ساحلی علاقوں میں بڑے تعداد میں ماہی گیر اباد ھیں جو روزانہ ھزاروں کی تعداد میں مچھلی کا شکار کر کر کے ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ھیں- اس بات کی اشد ضرورت ھے کہ ساحل سمندر کو ھر طرح کی آلودگی اور آ لائشوں سے پاک رکھا جائے کیونک اگر ساحل آلودگی کا شکار
ھو نگے تو پھر ماہی گیروں کو مچھلی کے شکار کے لئے گہرے پانیوں میں جانا پڑے گا جس سے ان کی قوت استعداد میں بھی کمی ائی گی اور وقت بھی زیادہ لگے گا-
ماہی گیروں کو مچھلی سٹاک کرنے کےلئے کولنگ سنٹرز اور مارکیٹوں تک فوری رسائی کے لئے ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے اس سے ماہی گیری کی صنعت کو فروغ ملے گا اور ماہی گیر خوشحال ھو گا اور اس سے یقیناً معیشت کو بھی استحکام ملے گا-
(6) خوراک اور اجناس کا ذخیرہ اور تقسیم:
پاکستان میں خوراک اور اجناس کے بحران کی ایک وجہ غذائی اجناس کو ذخیرہ کرنے اور ان کی بین الصوبائی ترسیل میں تاخیر بھی ھے کسی بھی ملک میں خوراک کو ذخیرہ کرنا اور چوری اور سمگلنگ سے بچانا ایک کٹھن عمل ھے ھمارے ھاں بدقسمتی سے ان لوگوں کو وزارت خوراک کا قلمدان سونپا جاتا ھے یا تو وہ خود انتہا کے بد دیانت یا پھر غذائی اجناس کی چوری اور سمگلنگ میں ملوث ھوتے ھیں غذائی بحران پر قابو پانے کےلئے قران مجید کی سورۃ یوسف سے اقتباس لونگا
سورہ یوسف میں جب عزیز مصر کی قید میں رھتے ھوئے حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کی خواب کی تعبیر بتاتے ھیں تو کچھ یوں ھے
“تم سات سال تک لگاتار کاشتکاری کرتے رھو گے پھر جو تم کاٹو تو اسے اس کے خوشوں میں چھوڑ دو ھاں مگر تھوڑا سا جو تم اس میں سے کھاؤ گے پھر اس کے بعد سات سخت سال آئینگے تم نے جو کچھ ان کیلئے پہلے سے جمع کر رکھا ھو گا اسے کھا جائیں گیں سوائے اس کے جو تم تھوڑا بچاؤ گے پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا اس میں خوب بارش ھو گی”
اس آیت کی تفسیر و تمثیل سے پتہ چلتا ھے کہ خوراک کو ذخیرہ کرنا اور اسکی ترسیل کی کتنی اھمیت ھے یہ آیت مبارکہ خوراک اور اجناس کا ایک واضح پلان مہیا کرتی ھے
اسی سورہ میں سے اگے جا کر جب عزیز مصر کی نظر میں حضرت یوسف کی سچائی اور حقیقت واضح ھو جاتی ھے تو وھ انھیں اپنا متعمد خاص مقرر فرماتا ھے اور وزارت کی پیشکش کرتا ھے تو حضرت یوسف علیہ السلام فرماتے ھیں
” آپ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے بیشک میں بہت اچھا محافظ ھوں اور اس کام سے پورا واقف ھوں”
یہاں سے یہ بات واضح ھے کہ زمینی خزانوں یعنی خوراک اور معدنیات پر اھل شخص اور محافظ ادمی کو وزارت کا چارج دیا جائے اس سے برکت ائے گی اور منصفانہ تقسیم اور ترسیل سے ھر طرح کے غذائی اور اجناس کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ھے لیکن اگر وزیر اور مشیر خود خائن ھو گا تو وہ بحران پیدا کرے گا
(7) معاشی ضروریات پر مبنی تعلیم:
(Knowledge based economy)
ھمارے ھاں جو نظام تعلیم رائج ھے اس میں معیشت کے حوالے سے اتنا علم ھے کہ بس تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری مل جائے خود سے پاؤں پر کھڑا ھونے کی کوئی ترغیب ھمارا نظام تعلیم نہیں دیتا – تعلیمی پالیسی اس طرح بنائی جائے کہ سیکنڈری ٫ ھائرسیکنڈری اور انڈر گریجوئیٹ لیول تک تعلیمی ادارے مقامی حالات لوگوں کی معاشی ضروریات اور بودوباش کو مدنظر رکھ کر قائم کئے جائیں مثلاً جہاں جنگلات ٫پہاڑ اور ھوٹللنگ ھو وھاں پر فوریسٹری ٫ ٹورازم اور ھوٹل مینیجمینٹ کی تعلیم دی جائے جہاں مقامی طور پر زراعت ھو وھاں زراعت اور انیمل سائنسز کی تعلیم دی جائے جہاں پر انڈسٹریل ایریا ھو وھاں پر انڈسٹری سے متعلق تعلیم دی جائے تا کہ گریجوئیٹ اپنے ھی علاقے میں معاش اور خودکفالت حاصل کر سکیں- ھمارے ھاں مقامی ضروریات اور بودوباش کچھ اور ھوتی ھے اور ھم وھاں پر ادب شاعری اور لیٹریچر پڑھا رھے ھوتے ھیں- اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ھے کہ گریجوئیٹ کو اس انداز کو تیار کیا جائے کہ وہ نوکری ڈھونڈنے کے بجائے چھوٹی صنعت یا کاروبار کے ذریعے خود اپنے پاؤں پر کھڑا ھو کر نوکری دینے والا بن جائے اور ملکی معیشت میں اس کا بھی کردار ھو وہ بوجھ نہ ھو سہارا بنے-
(8) امراء اور اھل ثروت طبقات پر ٹیکس:
دنیا بھر میں معیشت چلانے کے لئے ملک میں اھل ثروت اور دولتمند لوگوں سے ٹیکس لیا جاتا ھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں امراء سے تو ٹیکس لینے کا رواج ھی نہ بن سکا محض تنخواہ دار اور متوسط طبقے سے ٹیکس کے محاصل اکھٹے کئے جاتے ھیں چونکہ ملک میں ٹیکس کے محاصل کے اھداف پورے نہیں ھوتے اس لئے بین الاقوامی مالیاتی ادارے قرض دیتے وقت ھماری بجلی٫ گیس اور پیٹرول کے ٹیرف پر کڑی شرائط کے عوض ھمیں قرضے کی قسط جاری کرتے ھیں جس سے عوام پر بوجھ بڑھتا ھے اور مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ھوتا ھے- معیشت کی بحالی کے لئے کمزور طبقات کو ریلیف دیا جائے اور امراء اور لینڈلارڈز٫ صنعتکاروں کو ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ لایا جائے ایمپورٹ کے بجائے ملک کے اندر بننے والی اشیاء اور مقامی صنعتی پروڈیکس کی خریداری اور ایکسپورٹ پر توجہ دی جائے یقیناً اس سے محاصل کی شرح میں بہتری
آ ئے گی اور زر مبادلہ میں اضافہ ھو گا اور معیشت میں بہتری آئے گی-
قارئین کرام ان چند ایک پہلوؤں کی نشاندھی کرنے کا مقصد یہ ھے کہ معاشی خودکفالت کی منزل اس وقت تک حاصل نہیں ھو سکتی جب تک اس قوم کے افراد عملی طور پر معیشت کی بحالی میں اپنا کردار ادا نہ کریں- محض قرضے لیکر قرض اتارنے کی پالیسی سے معیشت بحال نہ ھو گی کچھ ٹھوس اور سخت عملی اقدامات کرنا ہونگے اور عوام الناس کو بھی عملی شراکت کرنا ھو گی خدا ھمارے ملک و قوم کا حامی وناصر ھو اور وطن عزیز پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے – امین

اپنا تبصرہ بھیجیں