سوشل میڈیا اور ھماری اخلاقی اقدار…………پروفیسر نعیم اختر عباسی

قارئین کرام موجودہ دور خبر اور معلوماتِ کا دور ھے یہی وجہ ھے کہ سماجی رابطوں میں روز افزوں اضافہ ھوا ھے اور سوشل میڈیا کا استعمال نجی استعمال سے لیکر قومی اور اجتماعی سطح سے ھوتا ھوا سرکاری سطح پر بھی پہنچ گیا ھے- وقت کے بدلتے دھارے میں سوشل میڈیا کا استعمال جہاں ایک طرف بہت اھم ھے وہاں دوسری طرف اس کے بے لاگ استعمال سے پیدا ھونیوالی صورتحال اور معاشرے پر اس کے اثرات انتہائی چیلینجنگ ھیں- ائیے اج ھم اس بات کا جائزہ لیتے ھیں کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے زمن میں ھماری اخلاقی و مذہبی تعلیمات کیا ھیں اور یہ میڈیا ھماری اخلاقی اقدار کو کس حد تک نقصان پہنچا رھا ھے-
تفصیل میں جانے سے قبل میں یہاں پر کچھ قرانی آیات اور احادیث مبارکہ کے اقتباس لونگا جو ھمارے لئے رھنمائی کا ذریعہ ھونگے
قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آ یت نمبر6
“اے ایمان والو! اگر کوئی آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ھو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر تمیں اس پر پچھتاوا ھو”
اسی سورہ مبارک کی آ یت نمبر 11
” اے ایمان والو! ایک جماعت کسی دوسری جماعت کا
مذاق نہ اڑا کرے ممکن ھے کہ وہ ان سے بہتر ھوں”
“اور تم آپس میں عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو”
سورہ الحجرات آ یت نمبر 12
“اے ایمان والو!بیشتر بدگمانیوں سے بچتے رھو بیشک بعض بدگمانیاں گناہ ھوتی ھیں اور کسی کا بھید نہ ٹٹولو”
اسی تناظر میں مسلم شریف اور ابوداؤد کی حدیث نقل ھے کہ ” آدمی کے جھوٹا ھونے کیلئے یہی کافی ھے کہ وہ ھر سنی سنائی بات کو اگے پھیلا دے”
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے درجہ بالا اقتباسات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھوتی ھے کہ ھمارے ھاں سوشل میڈیا کی بنیاد ھی بلا تحقیق خبر پھیلانے پر ھے یہی وجہ ھے کہ سوشل میڈیا کے بے لاگ استعمال نے ھماری اخلاقی اقدار کو بہت نقصان پہنچایا ھے جس سے ھمارے معاشرے میں بےیقینی اور اضطراب کو فروغ ملا ھے- سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال میں جو طبقات شامل ھیں ان میں ھمارا نوجوان طبقہ سر فہرست ھے ائیے پچھلے دو دہائیوں پہ غور کرتے ھیں کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے ھمارے میڈیا چینلز نے لوگوں کی کیسے تربیت کی اور اس کے کیا اثرات مرتب ھوئے-
قارئین کرام اگر ھم گزرے بیس برسوں پر غور کریں تو ھمارے مختلف الیکٹرانک ٹی وی چینلز پر ایک مخصوص طرز کے سٹیج شو پیش کیے جاتے رھے جن میں ایک اینکر دو مسخرے دو جگت باز دو خوبصورت دوشیزائیں اور ایک نقالی کرنے والا کردار ھوتا تھا – نقالی کرنے والا کردار انفرادی سطح سے لیکر قومی سطح تک ھر مذہبی و سیاسی اور ادبی شخصیات کی نقالی کرتے رھے اور مسخروں اور خواتین سے ھنسی اور جگتبازی کرائی جاتی رھی اور لوگوں کے نام دھرنے اور قہقہے بازی کو قومی سطح پر پروموٹ کیا جاتا رھا اور مختلف ٹی وی چینلز سے نشر ھونیوالے یہ پروگرام عوام وخواص کی بڑی تعداد گھروں میں فیملیز کے ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ھوتے رھے اور ان پروگراموں کا جو اثر نوجوان نسل پر پڑا وہ یہ کہ لوگوں اور جوانوں کے ذھن سے یہ بات عملاً محو ھو گئی کہ کسی کی نقالی کرنا نام رکھنا اور جگتیں کسنا اخلاقاً بری بات ھے
جب نوجوان لوگوں کی ذہن سازی ھو چکی تو اسی دوران کچھ سیاسی لوگوں نے سیاسی مقاصد کےلئے دھرنے دینے جس میں لوگوں نے دیکھا کہ سٹیج سے بھرپور طریقے سے دوسرے سیاسی شخصیات اور مذہبی لوگوں کے نام رکھے گئے اور مذاق اڑایا گیا اور جگتیں کسی گئیں
اسی طرح کے ایک دوسرے دھرنے میں بظائر ایک عالم دین یا مفتی کو لایا گیا جو جگتبازی میں بہت ماہر تھا اور اس کی تقاریر کو بھی دیگر لوگوں کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر اچھالا گیا یہ سوچے بغیر کہ اجتماعی سطح پر معاشرے میں اس کے کیا اثرات ھونگے-
قارئین کرام ان وجوہات کی وجہ سے اج سوشل میڈیا کا غیرذمہ دارانہ استعمال اس قدر بڑھ گیا ھے کہ کسی کی بھی عزت اور پردہ محفوظ نہیں – والدین اساتذہ اور علماء و واعظین سب بے بس دکھائی دیتے ھیں کہ سوشل میڈیا اب ایک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا انجینئرنگ بن چکی ھے اور اس پر ھمارے اداروں کا کوئی کنٹرول نہیں –
قارئین کرام حالات تو اس نہج تک جا پہنچے ھیں کہ سوشل میڈیا انجینئرنگ کے شکار معزز عدالتوں کے جج صاحبان بھی بن چکے ھیں- ابھی حال میں کراچی سے بھاگ کر شادی کرنیوالی دعا زہرہ کیس میں سوشل میڈیا کے کردار نے ھماری اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا ھے جہاں پر والدین بےبس نظر اتے ھیں اور سوشل میڈیا پر ھونیوالے بچی کے انٹرویوز ھماری نئی نسل کو کیا پیغام دے رھے ھیں- اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا کی ایپ پر آئے دن نت نئے پیغامات اور جھوٹی سچی احادیث اور قرعہ اندازی کے جھانسے لوگوں کی کثیر تعداد کو متاثر کر رھے ھیں-
قارئین کرام!
اپنی اخلاقی اقدار کو محفوظ بنانے اور سوشل میڈیا کی اس یلغار سے نبٹنے کیلۓ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اس کیلئے مکمل قواعد و ضوابط اور قانون سازی کرنا ھو گی اگر درپیش چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوۓ مطلوبہ قانون سازی پر توجہ نہ دی گئی تو ھم اور ھماری انیوالی نسلیں ایک ایسی دلدل میں پھنس جائیں گی کہ پھر اس سے نکلنا مشکل ھو گا-میری عوام وخواص اور بالخصوص اپنے نوجوان طبقے سے خصوصی استدعا ھے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو بامقصد بنائیں اور بلا تحقیق محض سوشل میڈیا میں ریٹینگ بڑھانے کےلئے جھوٹی خبریں پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں اور اپنی دینی اور مذہبی اخلاقی تعلیمات پر عمل کریں کہ اسی میں ھماری بقا ھے- اللہ تعالیٰ ھم سب کا حامی و ناصر ھو-امین

اپنا تبصرہ بھیجیں