معاشرہ اور نظریہ ضرورت…. قادر خان یوسف زئی

ہمارے معاشرے میں اجتماعی جذبہ ناپید ہوتا جارہا ہے ، موجودہ حالات میں اسے کم ازکم قائم کیا جانا چاہیے بلکہ نئے سرے سے عمل بھی کیا جائے ۔ اقدار اور اصول میں ہمیں توازن کی سطح برقرار رکھنا ہوگی۔ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو یہ نہ سوچتا ہو کہ ہمارے مستقبل کا معاشرہ کیا ہوگا ، اس وقت جیسا معاشرہ کیسا چل رہا ہے ؟ پچھلی دہائیوں میں کیا بدلا ہے ، ہمیں اس حوالے سے بات کرنا ہوگی۔ جب تک ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے اس وقت تک یہ نہیں سمجھ سکتے کہ سماجی اور سیاسی مسائل کی درست نشاندہی کس طرح قابل شناخت ہوں۔ اس کے بعد ہی مسائل اور ان سے پیدا شدہ خساروں کا ردعمل جانا جاسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں موجودہ سیاست کی وجہ سے بہت زیادہ مایوسی اور انحطاط کی علامات ،اقدار کا زوال ہونا سمجھا جارہا ہے ۔لیکن آزادی میں نئی سوچ اور عمل درآمد کے لیے بات کرنے کا فقدان پایا جاتا ہے ، شاید یہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی کمزوری کی وجہ سے ہے ، اقدار میں تبدیلی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی قرار دی جاتی ہے۔ہم سیاست ، کاروبار، ملازمت اور سماج میںمختلف رائے ، عہدوں اور اتحاد کے عادی ہوچکے ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج لوگ اپنے ذاتی ماحول میں زندگی کے مختلف طریقوں ، ثقافتوں ، عقائد اور مذاہب کو برداشت کرنے کے لیے مذاکرات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، وہ اس امر میں بھی دلچسپی لینا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ماحول کو بہتر بنانا سب کی یکساں ذمے داری بنتی ہیں۔ مثبت معاشرہ مجموعی اور اخلاقی طور پر منحرف رویے کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتا ہے ، جس میں اظہار رائے کی آزادی ، خود مختاری ، رواداری اور کشادگی قلب ہو۔ لیکن ایسا ہونے کے لیے اقدارکے نظام کو جو کبھی سب کے لیے پابند تھا اس میں نرمی کرنا ہوگی ۔مختلف قدر کے نظام آج ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں ، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرسکتے ہیں، یہی بات ان اداروں پر بھی لاگو ہوتی ہے جن کے بارے میں سمجھا جاتا جاتا ہے کہ وہ طرز زندگی کے لیے انفرادی رجحان پیش کرتے ہیں ، لیکن مذہبی وابستگی، انجمنیں یا سیاسی حلقے مسلسل کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
ہم آج تک قیام پاکستان کے مقصد کو ہی نہیں سمجھ سکے اور جو سمجھ چکے تھے انہیں اب سمجھا نہیں جارہا ، ہر ایک لیے قیام پاکستان کی الگ وجوہ ہے۔ وہ اپنے موقف سے ہٹنے کے لیے بھی تیار نہیں ، کیا ہم اس امر کا تصور کرلیں کہ قیام پاکستان میں جس معاشرے کی تشکیل کی جانی تھی وہ ویسا ہی ،جیسا ہر ایک اپنی منشا کے مطابق بتاتا ہے ۔ جائے تاسف ہی نہیں ، مقام حیرت بھی ہے کہ قیام پاکستان کی تشکیل کے اہم کردار کے لیے اب کوئی سند کا بطور شواہد پیش کرنا بھی کسی کے لیے قابل قبول نہیں رہا ، بلکہ نہ کوئی کسی سند کے پیش کرنے کی اب ضرورت سمجھتا ہے ، نہ کوئی اس قسم کا دعویٰ کرنے والے سے سند کا مطالبہ کرتا ہے ، یہی ہماری تمام خرابیوں اور تباہیوں کی جڑ بن چکا ہے اور ہماری ناکامیوں اورنامرادیوں کی داستان۔ اسی سے قوم میں اس قدر اختلاف اور انتشار ہے اور اسی وجہ سے ہماری گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔پاکستان کی75 سالہ تاریخ اس کی زندہ شہادت ہے۔
معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور کسی نظام میں معاشرہ سے متعلق بحث و تمحیص کی مثال یوں سمجھئے جیسے کسی گائوں میں جہاں نہ ہسپتال ہو اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر ، گائوں والے اس بحث میں الجھ رہے ہوں کہ مریض کے گردے کا آپریشن کس دن کرایا جائے ۔ آپریشن کا سوال اُس وقت سامنے آئے گا جب وہاں ڈاکٹر موجود ہوں ، یوں سمجھئے کہ ہمارے معاشرے کی مثال بھی کچھ ایسے ہی ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹروں کے بغیر آپریشن کی تفصیلات طے میں وقت اور توانائی ضائع کی جا رہی ہے اور ہر ایک یہ دعویٰ کرتا نظر آتا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ درست کرسکتا ہے تو صرف وہی کرسکتا ہے ، دوسرا تو محض معاشرہ خراب کررہا ہے۔ میکیاولی کے مطابق بادشاہ ( حکمران) کے لیے صفت ِ روباہی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ دجل و فریب کے جال بچھا سکے، اس کے ساتھ خوئے شیری بھی تاکہ وہ بھیڑوں کو خائف رکھ سکے ، اس لیے عقل مند بادشاہ ( حکمران ) وہ ہے کہ جب وہ دیکھے کہ کوئی عہد یا معاہدہ اس کے اپنے مفاد کے خلاف جاتا ہے ، یا جن وجوہ کے پیش نظر وہ معاہدہ کیا تھا ، وہ باقی نہیں رہیں تو اسے بلا تامل توڑ ڈالے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی عہد شکنی کے لیے نہایت نگاہ فریب دلائل بہم پہنچائے۔ ( دی پرنس ۔ باب 18صفحہ232) ۔
نظریہ ضرورت کی یہی اصطلاح سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوار الحق نے استعمال کی تھی لیکن انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ یہ نظریہ اسلامی ہے جب ہمارا نظام عدل ہی ہنوز اسلامی نہیں تو کوئی فیصلہ اسلامی کیسے قرار پاسکتا ہے۔بیشتر قوانین ہمارے معاشرتی اقدار و دینی اقدار کے متصادم ہوتے ہیں ، قوانین کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جسٹس ( ریٹائرڈ ) بی زیڈ کیکائوس بنام سٹیٹ میں یہ بحث تفصیل سے سامنے آئی کہ قوانین کی نوعیت کیا ہے ، جس پر کہا گیا کہ جب تک مملکت اسلامی قوانین نافذ نہیں کرتی ، مقدمات کے فیصلے عام ملکی قوانین کے رو سے ہوں گے ۔ اس میں خصوصیت سے بھٹو کے مقدمہ قتل کا حوالہ دیا گیا جس میں وکیل صفائی یحییٰ بختیار نے کہا تھا کہ اسلامی قوانین کی رو سے قتل خطا کی سزا موت نہیں ہوسکتی ، اس دلیل کو بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا تھا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ اسلامی قوانین کی رو سے نہیں بلکہ مملکتی قوانین کی رو سے ہوا ہے ۔ (P.L.D August 1980, P.P 163-174, 5c)۔
اب اس مختصر بحث کو سمیٹ لیتے ہیں کہ معاشرہ کسی ایسے نظام کے تابع درست چل سکتا جہاں نظریہ ضرورت کی من پسند تشریح نہ ہو۔ معاشرہ کو اس کے سمت کی درستگی کے لیے دجل و فریب کے خود ساختہ نظریہ ضرورت سے خود کو دور رکھنا ہوگا جو کسی فروعی خواہش کے تابع ہو ، پاکستان کے قیام کا مقصد بالکل واضح تھا لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی منزل سے بہت دورچلے گئے ہیں اور سب کچھ اب نظریہ ضرورت کے تحت طے کیا جاتا ہے، نظریہ ضرورت کی مختلف اشکال مختلف اداروں میں مختلف ناموں سے رائج عمل ہیں اور اس پر عمل روز دیکھتے ہیں۔نظریہ ضرورت کا تصور بدلنا سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں