” وفا کے خوگر وفا کریں گے” …………..عبدالحنان راجہ

اگست کا مہینہ اس لحاظ سے یادگار رہتا ہے کہ اس میں تحریک پاکستان کے شہدا کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے وہ کہ جن کا مقدس خون اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں میں شامل اور جن لہو نے تحریک پاکستان کو ایک ولولہ تازہ دیا. جن کی قربانیوں کی بدولت اس کرہ ارضی پر پہلی اسلامی ریاست کا وجود ممکن ہوا ان جذبوں کی حرارت آج بھی قوم کے دلوں میں باقی ہے اور وطن کی بقا کے لیے جانیں نچھاور کرنے والوں کی یادیں دلوں میں زندہ رہتی ہیں. وطن عزیز پر جب بھی مشکل وقت آیا پاک فوج کے جوانوں اور قوم کے ان بیتوں نے جذبہ ایثار و قربانی کی شاندار روایات قائم کیں. اس میں شک نہیں کہ بے شمار سازشوں، اغیار کی ریشہ دوانیوں اور جارحیت کے باوجود بھی یہ ملک قائم و دائم اور پھر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ، ان سب میں کامیابی جہاں قومی جذبہ حب الوطنی اور اتحاد سے ممکن ہوا وہاں 80 ہزار سے زائد قربانیاں بھی اس میں شامل ہیں. شہادتوں اور قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے جو رقم کی جاتی رہیں گی. ابھی لیفٹینٹ جنرل سرفراز، میجر جنرل امجد حنیف برگیڈیر محمد خالد، میجر طلحہ، میجر سعید، نائیک مدثر کی یادیں تازہ تھیں کہ مغربی محاذ پر 4 جوان دھرتی پر قربان ہو گیے. یہ حقیقت ہے کہ کوئی جوان جب وردی زیب تن کرتا ہے تو شہادت اس کے پیش نظر ہوتی ہے. اگر وہ غازی رہے تو بھی سکندر. شہید طلحہ بھی ان میں شامل جنہیں دونوں سعادتیں میسر آہیں کہ جب مملکت خداداد پر فتنہ خارجیت اور دہشت گردی اپنی عروج پر تھی تو پاک فوج کے جوانوں نے اس کے آگے سد سکندری باندھا. دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہزاروں نے شہادت پائی اور ہزاروں غازی ٹہرے، شہید کے والد عبدالمنان نے بتایا کہ کاکول سے تربیت کے بعد عملی میدان کے لیے طلحہ کو وانا جیسا مشکل محاذ ملا جہاں اس نے داد شجاعت دی. مصدقہ اطلاع پر پہاڑی غار میں چھپے دہشت گرد پر عقاب کی طرح جھپٹا اور اسے زندہ گرفتار کر لیا . بعدازاں تفشیش پر اس دہشت گرد سے اہم معلومات ملیں. حیدری لشکر کے اس جانباز کو اس جرات پر اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کی جانب سے تعریفی سند سے نوازا گیا. پاک فوج کے یہ جوان کبھی تو سنت شبیری پر عمل پیرا ہو کر نقد جاں لٹاتے ہیں تو کبھی مواخات مدینہ کی راہ پر، ان جوانوں کا رشتہ اخوت مال و زر کی بجایے سانس کی ڈوری سے جڑا ہوتا ہے کہ یہ مصیبت زدہ عوام کی خدمت کے دوران اپنی جاں سے بھی گذر جاتے ہیں یقینا اخوت کی ایسی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں. سندھ و پنجاب کے میدان ہوں یا بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ، سیاچن اور شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں ہوں یا کشمیر کی پرپیچ وادیاں، وطن کے بیٹے سربکف طوفان، سیلاب، خراب موسم اور آفات سے لڑتے اور آفت زدوں کا سہارا بنتے نظر آتے ہیں. سپہ سالار قمر جاوید کو شہید کے والد سے کہتے سنا کہ’ بڑے سے بڑا جرنیل بھی ان جوانوں کی تربت پر سلامی کا پابند کہ جو منصب انہیں عطا ہوا ہے اس سے ہم محروم رہے.’ شہیدوں کے خون سے وفا زندہ قوموں کا شعار مگر اس کو نبھانے کے لیے ہمیں آپنے اطوار بدلنا ہوں گے. شہیدوں نے جس رشتہ اخوت کو نبھانے کے لیے اپنی جانیں لٹاییں اس ایثار کو بحیثیت قوم ہمیں اپنے اندر زندہ کرنا ہو گا. انتہا پسندانہ رویے، تنگ نطری اور طعن و تشنین ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اس کی وجہ کہ ہم اپنا فکری ورثہ نسل نو کو منتقل کر سکے اور نہ نظریاتی اساس کی حفاظت کا فریضہ کما حقہ ادا کر سکے. معروف سکالر علامہ حبیب الرحمن مدنی نے اپنے خطاب میں بہت اہم نکتہ اٹھایا کہ ہم نوجوان نسل کو بتا نہیں سکے کہ پاکستان کیسے اور کیوں بنا….! کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ تاریخ انسانی کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی اور لاکھوں قربانیاں اس میں شامل، اقبال نے جس آزاد اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر اقبال کے شاہینوں نے ہی کرنی ہے، مگر کیسے. کہ اپنے شہیدوں اور غازیوں سے تجدید عہد وفا کر کے کہ. “وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہوا تھا، وطن کی خاطر جیئں مریں گے یہ طے ہوا تھا’ ‘ بوقت ہجرت قدم اٹھیں تھے جو سوئے منزل ،تو بیچ رستے کے دم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا’ ” تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کر کے، اس وطن کو وطن کہیں گے یہ طے ہوا تھا’ ” تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے، جو طے نہیں وہ طے کریں گے یہ طے ہوا تھا”

اپنا تبصرہ بھیجیں