قصور میں بچوں کے مبینہ اغوا کی ایک اور واردات

قصور(سی این پی)پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں بچوں کے مبینہ اغوا کی ایک اور واردات سامنے آئی ہے۔عینی شاہدین نے دعوی کیا ہے کہ محلہ ہاشم چوک سے نامعلوم مبینہ اغواکاروں نے دو بچوں کو اٹھایا تھا، اس دوران بچوں کے شور مچانے پر مقامی لوگوں نے اغواکاروں کا پیچھا بھی کیا۔عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اغوا کار ایک بچے کو ساتھ لے گئے جب کہ ایک کو بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔اغواکاروں سے بچنے والے بچے عمر دراز کو تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال چونیاں منتقل کر دیا گیا ہے۔واقعے کے خلاف شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کر دی۔ بعض مشتعل افراد نے تھانہ سٹی پر بھی پتھرا ئوکیا۔پولیس کے مطابق معاملہ مشکوک لگتا ہے کیونکہ اسپتال میں زیر علاج بچہ بیان بدل رہا ہے اس لیے تحقیقات جاری ہیں۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جس بچے کے مبینہ اغوا کا لوگوں نے دعوی کیا ہے اس حوالے سے کسی بھی شخص نے ابھی تک پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔زیادتی کے بعد قتل کیے گئے بچوں کے معاملے پر ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پنجاب فرانزک لیب کی ٹیم چونیاں پہنچ کر ووٹرلسٹوں اور مردم شماری کے مطابق ٹیسٹوں کا آغاز کر دیا ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ متاثرہ بچوں کے عزیزوں اور قریبی رہائشیوں کے نمونے لیے جا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چونیاں کے محلے محلہ غوثیہ آباد، پیر جہانیاں، سموں والا اور الہ آباد سے بھی ٹیسٹ لیے جائیں گے۔فرانزک ٹیسٹوں کی نگرانی ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر اشفاق کاظمی کر رہے ہیں جب کہ ذرائع کا بتانا ہے کہ 50 مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ سمپل لیے جا چکے ہیں۔واضح رہے کہ پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ قصور کی تحصیل چونیاں میں ڈھائی ماہ کے دوران چار بچوں کو اغوا کیا گیا جن میں سے تین بچوں فیضان، علی حسنین اور سلمان کی لاشیں جھاڑیوں سے ملی تھیں جب کہ 12 سالہ عمران اب بھی لاپتا ہے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں رواں سال 7 ماہ میں 126 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔پنجاب کے مختلف تھانوں میں بچوں سے زیادتی کے 126 مقدمات درج ہوئے جن میں 129 ملزمان کو نامزد کیا گیا لیکن پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث متعدد گرفتار ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوگئے۔خیال رہے کہ گزشتہ سال قصور میں ہی کم سن بچی زینب کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا تھا جس کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا اور چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے بھی واقعے کا نوٹس لیا گیا جب کہ پولیس نے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے زینب کے قاتل کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد جرم ثابت ہونے پر پھانسی دے دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں