چراغ تلے اندھیرا،پولیس کلچرمیں تبدیلی کے خواہاں دبنگ پولیس آفیسر کے گھرملازمین کا استحصال

بطور ڈی پی او اٹک ، سی پی او راولپنڈی اور آر پی او راولپنڈی اپنے ماتحتوں کی ناقص کارکردگی پر محمد وصال فخر سلطان راجہ نے زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کیا
ڈیوٹی میں غفلت کے مرتکب افسران و اہلکاروں کیخلاف سخت محکمانہ کارروائی ،عہدوں سے تنزلی ،معطلی ،سروس ضبطگی اور ملازمت سے برخاستگی کی سزائیں
اے آئی جی خیبر پختون خوا کی اہلیہ نے دس سال سے گھر کام کرنے والے پولیس اہلکار کو حکم عدولی کے جرم میں چوری کے جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کروایا
ملازمین کی حق تلفی ،جبر کے حوالے سے شہرت کی حامل شرمین سلطان کے جبر سے تنگ اہلکار کی ماضی میں سی پی او روالپنڈی آفس کے سامنے خود کشی کی کوشش

اسلام آباد(سی این پی)اعلی شہرت کے حامل سی ایس ایس آفیسر محمد وصال فخر سلطان راجہ نے آج سے چودہ سال قبل2008 بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اٹک اپنی صلاحیتیوں کا لو ہا منوایا اور دبنگ پولیس آفیسر کے طور پر سامنے آئے ،روایتی پولیسنگ کی حوصلہ شکنی کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ روایتی انداز تفتیش کی راہ میں وہ نہ صرف رکاوٹ بنے بلکہ ناقص تفتیش کرنے والے پولیس افسران اور ڈیوٹی میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی انکی وجہ شہرت بنی ۔جتنا عرصہ وہ اٹک پولیس کی کمان کرتے رہے پولیس کلچر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی جسکے بعد انہوں نے بطور سی پی او راولپنڈی خدمات سرانجام دیں اور ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی بھی تعینات رہے ہیں ۔بطور ڈی پی او اٹک ، سی پی او راولپنڈی اور آر پی او راولپنڈی اپنے ماتحتوں کی ناقص کارکردگی پر محمد وصال فخر سلطان راجہ نے زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کیا ۔کرپشن کی شکایت پر عدم برداشت،ڈیوٹی میں غفلت کے مرتکب افسران و اہلکاروں کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی ،عہدوں سے تنزلی ،معطلی ،سروس ضبطگی اور ملازمت سے برخاستگی کی سزائیں دیناانکا خاصا رہا جسکی وجہ سے محکمہ پولیس میں انکا رعب او ر دبدبہ ایسا تھا کہ جسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔انکی اٹک تعیناتی کے دوران سینکڑوں افسران و اہلکاروں کیخلاف محکمانہ کارروائی کی گئی ،جسکے بعدبطور سی پی او راولپنڈی اور ڈی پی او راولپنڈی بھی انہوں نے پولیس کے روایتی کلچر کی تبدیلی کی کوششیں جاری رکھیں اور ڈیوٹی میں غفلت برتنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔دوسری جانب انکی اہلیہ شرمین سلطان ملازمین کی حق تلفی اور ان پر جبر کرنے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی ہیں ،ماضی میں انکے جبر سے تنگ پولیس اہلکار نے سی پی او روالپنڈی آفس کے سامنے خود کشی کی کوشش کی اور چند روز قبل انہوں نے دس سال سے انکے گھر کام کرنے والے پولیس اہلکار کو حکم عدولی کا خوب مزا چکھایااور صابر علی نامی کلاس فور ملازم پر چوری کا الزام عائد کرتے ہوئے تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کروانے کے بعد اسے گرفتار کروا دیا۔ واضح رہے کہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا محمد وصال فخرسلطان راجہ کے گھر کام کرنے والے سہالہ ٹریننگ سینٹر کلاس فور ملازم نے پشاور میں واقع انکے گھر میں کام کرنے سے انکار کیا،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صابر علی سہالہ ٹریننگ سینٹر کا ملازم ہے جبکہ محمد وصال فخر سلطان راجہ ان دنوں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل خیبر پختون خوا اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں اور آج سے بارہ سال قبل جب وہ سی پی او راولپنڈی تعینات تھے اس وقت سے صابر علی انکے گھر پر ذاتی ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔پشاور جانے سے انکار پر انکی اہلیہ شرمین سلطان نے ذاتی عناد کی بنا پرتھانہ کوہسار اسلام آباد میں بے بنیاد چوری کا مقدمہ قائم کروایا جس میں بے قصور صابر علی کووفاقی پولیس نے گرفتار کیااور عدالت سے آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے صابر علی سے تفتیش کی، آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد صابر علی کو عدالت میں پیش کیا گیا، تفتیشی افسر تنویر احمد خان نے رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ ایف آئی آر میں دی گئی معلومات کے مطابق صابر علی سے تفتیش کی گئی مگر کوئی ثبوت نہیں ملا ،نہ ہی ملزم نے اعتراف کیا نہ ہی کوئی برآمدگی کروائی۔تفتیشی افسر کی رپورٹ ملاحظہ کرنے کے بعد مجسٹریٹ محمدشعیب اختر نے بے بنیاد الزامات اور عدم ثبوت کی بنا پر خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مقدمہ ختم کردیا اور صابر علی کو فوری رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بے بنیاد اور جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر وفاقی پولیس نے مدعی مقدمہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی دبنگ ،اصول پرست اور محکمہ پولیس کے روایتی کلچر میں تبدیلی کے خواہاں اے آئی جی خیبر پختون خوا محمد وصال فخر سلطان راجہ نے جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے، بے گناہ ملازم کو پابند سلاسل کروانے پر اپنی اہلیہ کے فعل کیخلاف خلاف لب کشائی کی جس سے انکی شخصیت اور اصول پسندی پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔یہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ کیا قانون نافذ کرنے والے قانون سے مبرا ہیں ؟طاقتور اور بااثر افراد قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے یا انکا محاسبہ ممکن نہیں ؟اختیارات کا ناجائز استعمال پولیس کلچر کا حصہ ہے ؟روایتی پولیس کلچر کا خاتمہ زبانی جمع خرچ سے ہو گا یا عملی اقدامات اٹھانے ؟کمزور کب تک ظلم کی چکی میں پسے گا ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں