اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95کے برخلاف ہے،چیف جسٹس

اسلام آباد(سی این پی)وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے وکلاء دلائل مکمل ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل بھی مکمل ہو چکے ہیں۔سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی، گزشتہ رات حمزہ شہبازکو نجی ہوٹل میں وزیراعلیٰ بنا دیاگیا، آج سابق گورنرپنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین 10، 12 صفحوں کی کتاب ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتاہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تقریرناکریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کل ٹی وی پربھی دکھایا گیاکہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں۔جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کہا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیا کر رہے ہیں پنجاب میں آپ لوگ؟ مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاموجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کوئی بھی غیرآئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کہ حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں، اگرپارلیمنٹ میں کوئی غیرآئینی حرکت ہو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی حل نہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگرپارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیرآئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی دادرسی نہیں ہو سکتی؟ جس پر علی طفر نے بتایا کہ برطانیہ کی ہاؤس آف کامن میں ایک ممبرکو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججزکے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسےہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چاردیواری کے اندرکا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثرپارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا انتخاب یا تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟صدر مملکت کے وکیل نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتاہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرےکو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹرمنتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیرقانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟ جس پر صدر پاکستان کے وکیل نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجوکیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیےفیصلہ عوام ہی کرےگی۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتمادکے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مانتا ہوں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے، اگرکوئی بھی ناکام ہو رہا ہو تو کیا ایسے رولنگ لاکر نئے الیکشن کرا لے؟ انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انتخابات کی کال دےکر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگارچھوڑ دیاجاتا ہے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ جہاں تک صدرکی بات ہے وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پرعمل کرتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی اب بھی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے، مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیاجائے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کے سیاسی محرکات میں نہیں جانا چاہتا، عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پربات کرنی چاہیے۔عمران خان کے وکیل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب وزیراعظم کےخلاف عدم اعتمادہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنےکا راستہ ہموار کیا، ہم نےکل بھی کہا تھاکہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95کے برخلاف ہے، دیکھناہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینےکا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورت حال قومی مفاد میں نہیں ہے۔امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الٰہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنےکا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سےکہا گیا کہ لیوگرانٹ ہونےکے بعد رولنگ نہیں آسکتی، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آسکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیاکہیں گے؟عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر کو معلوم ہو بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو قانون سے ہٹ کربھی ملک کو بچائےگا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدودکا تعین عدالت کوکرنا ہے، جس پر امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جوبہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمنٹ اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنےکی پابند نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرےگی، عدالت جائزہ لےگی کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے، کیا ڈپٹی اسپیکرکے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھاجس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی پر فرد واحد اثر انداز نہیں ہو سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ڈپٹی اسپیکرکے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکرکے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھاجس پر رولنگ دی؟ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکرکو 28 مارچ کو ووٹنگ پرکوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کےدن رولنگ آئی۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نےکہا اگربدنیت ہوتا تو اپنی ہی حکومت تحلیل ناکرتا، وزیراعظم نےکہا معلوم ہے نئے انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے، وزیراعظم نےکہا وہ ان کے خلاف عوام میں جا رہے ہیں جنہوں نےکئی سال حکومتیں کیں۔نعیم بخاری نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کو اپناتا ہوں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اتنےدنوں سے آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہر سوال کا جواب دوں گا، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لیے بیتاب ہیں۔وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 95کی حد اور اس میں دیےگئے مقررہ وقت سے آگاہ ہوں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا اسپیکرکا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اگر اسپیکرپوائنٹ آف آرڈر مستردکر دیتاکیاعدالت تب بھی مداخلت کرتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈرپر مستردہو سکتی ہے؟ جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پوائنٹ آف آرڈرپر تحریک مسترد ہونےکا واقعہ کبھی ہوا نہیں، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مستردکرنے کا اسپیکرکا اختیار ضرور ہے ، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تحریک پیش ہونے کے لیے لیو گرانٹ کاکوئی آرڈر ہوتا ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونےکی منظوری کا یہ مطلب نہیں کہ مستردنہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کے لیے منظورکرکے بعد میں خارج کرتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی اجلاس شروع ہوتےہی وزیر قانون فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو جاتی توپوائنٹ آف آرڈر نہیں لیاجا سکتا تھا۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ کیا فوادچوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ بھی پیش کروں گا، اسپیکرکو اختیار ہے کہ ایجنڈے میں جو چاہے شامل کر لے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد شامل ہونے کا مطلب ووٹنگ کے لیے پیش ہونا نہیں؟ تحریک عدم اعتمادکے علاوہ پارلیمان کی کسی بھی دوسری کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا اسپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر اسپیکرکے خلاف کوئی کاروائی ہوسکتی ہے؟نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہیں وہاں رولز بنائے جاتے ہیں۔دوران سماعت اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات عدالت کے سامنے پیش کر دیے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے منٹس تو ہیں لیکن اس میں شرکاءکون کون تھے؟ قومی سلامتی کمیٹی میں بریفنگ کس نے دی؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پارلیمانی کمیٹی میں بریفنگ دی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ وزیرخارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں موجود تھے یا نہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں نہیں تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملک کا وزیر خارجہ ہے اور اہم اجلاس میں موجود نہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اجلاس کے منٹس میں معید یوسف کا نام بھی نہیں ہے۔نعیم بخاری نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونےکے بعد اسمبلی میں وقفہ سوالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نےکہاکوئی سوال نہیں پوچھنے، صرف ووٹنگ کرائیں، اس شورشرابےمیں ڈپٹی اسپیکر نےاجلاس ملتوی کر دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈکے مطابق قومی سلامتی اجلاس میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کوبریفنگ دینے والوں کےنام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیر خارجہ کوپیغام آیا،کیا انہیں اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ 31مارچ کو نوٹس ہوا، اسی دن اجلاس بھی بلایا گیا۔نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں کیا ہوا، کون تھا،کون نہیں، یہ اٹارنی جنرل کو بتانا ہے، 7 مارچ کو ہمارے سفیرکو ایک اجلاس کے لیے بلایا جاتا ہے، ہمارے سفیرکو بتایا جاتا ہے عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کیا جائے گا۔جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ 7 مارچ کو سفیرکوکہاگیا، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے 31 مارچ کے اجلاس میں 57 ممبران اسمبلی موجود تھے، ممبران اسمبلی کو سیاہ وسفید صورتحال کا معلوم ہو چکا تھا، آپ کے وزیر نے 3 تاریخ کو پوائنٹ آف آرڈر دیا، اگر خیال کیا جائے پارلیمانی کمیٹی سے متعلق اپوزیشن کو ان کے ساتھیوں نے بتا دیا تھا، کیا آپ کو اپوزیشن کی طرف سےجواب دیےجانےکا وقت نہیں دینا چاہیے تھا؟ پوائنٹ آف آرڈرپر رولنگ کی بجائےاپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈرپربحث نہیں ہوتی، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا 3 منٹ کی تھی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فواد چوہدری نے اسپیکرکو تحریک عدم اعتماد آرٹیکل5 سے متصادم ہونے پر رولنگ مانگی، یہ بھی ہو سکتا تھا اراکین کہتے تحریک عدم اعتماد آئین کے خلاف ہے اس لیے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، اسپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں تحریک عدم اعتماد مستردکرنا شاید اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، یہ بھی ممکن تھاکچھ ارکان اسپیکرکی رولنگ سے مطمئن ہوتےکچھ نہ ہوتے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکرکو لکھاہوا ملا کہ یہ پڑھ دو، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے آخر میں اسپیکر اسد قیصرکا نام بھی لیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیاعوامی نمائندوں کی منشاکےخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہرنہیں آتا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں