کیا مستقبل قریب میں تمام سیٹلائٹ لکڑی سے بنائے جائیں گے؟

ٹوکیو(سی این پی )سنہ 2022 میں 290 دنوں سے زیادہ دنوں کے لیے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے لکڑی سے تیار کردہ جاپانی تجرباتی ماڈیول کیبو کی لکڑی کے نمونوں کا تجربہ کیا گیا۔

جب اس لکڑی کے بنے صندوق یا بکسے پر شدید کائناتی شعاعوں کی بمباری کی گئی اور اسے خلا کے سخت ماحول میں درجہ حرارت کی انتہائی تبدیلیوں کا سامنا کرایا گیا تو مگنولیا درخت کی لکڑی نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ان تجربات سے گزرنے کے بعد نہ تو یہ جلی، نہ سڑی، نہ اس میں دراڑیں آئیں اور نہ ہی اس کی شکل تبدیل ہوئی اور جب یہ زمین کی فضا میں واپس داخل ہوئی تو جل کر ختم ہو گئی اور صرف باقیات کے طور پر تھوڑی سے راکھ چھوڑی۔

لکڑی کے مصنوعی سیاروں کا ایک اور فائدہ ان کے منعکس کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ فی الحال ایلومینیم کے مصنوعی سیاروں سے جو انعکاس ہوتا ہے وہ انتہائی روشن ہو سکتے ہیں اور وہ زمین سے کھلی آنکھ سے آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ منعکس ہونے والی روشنی حساس علاقوں تک پہنچ سکتی ہے اور فلکیاتی مشاہدات میں مداخلت کر سکتی ہے۔

لِگنو سیٹ نامی سیٹلائٹ کا آزمائشی آغاز فی الحال 2024 کے لیے ہے۔ اور اگر یہ کامیاب رہتا ہے تو مستقبل کے مشنوں کے لیے یہ راستہ ہموار کر دے گی۔

تو کیا مستقبل قریب میں تمام سیٹلائٹ لکڑی سے بنائے جائیں گے؟ بدقسمتی سے یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے پروجیکٹ محققین کو لگے بندھے اصولوں سے ہٹ کر سوچنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے مزید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اگر لگنو سیٹ کامیاب ہو جاتا ہے تو مزید تحقیقی گروپ خلا میں مزید ملبے کے بننے کو روکنے کی کوشش میں بایوڈیگریڈیبل مواد کو شامل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

تاہم ابھی کے لیے میں زمین کے گرد مدار میں زیادہ سے زیادہ اشیاء کو فعال طور پر تلاش یا ٹریک کیے جانے والے کام کی ایک مضبوط حامی ہوں تاکہ خلا میں موجود مواد کے ساتھ مستقبل کے تصادم کو کم سے کم کیا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں