مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منظور

لاہور(سی این پی) لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی ہے۔ بینچ کے تینوں ججز نے متفقہ طور پر شہبازشریف کی درخواست منظور کی اور کسی جج نے اعتراض نہیں اٹھایا۔فل بنچ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ سنا یا، لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ میں جسٹس علی باقر نجفی،جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی شامل تھے۔اس سے قبل شہباز شریف کی ضمانت کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال کے اختلافی نوٹ کی بنا پر چیف جسٹس قاسم خان نے فل بینچ تشکیل دیا تھا۔تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میںپاکستان مسلم لیگ (ن ) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی ہے۔جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے شہبازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، عدالت کے روبرو نیب پراسیکیوٹر نے شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کی آبزرویشن پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ نیب توہین عدالت کا نوٹس دلوانا چاہتی ہے، ہم باہر جا کر کلائنٹ کو کیا بتائیں کہ ضمانت ہوئی ہے کہ نہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے موقف پیش کیا کہ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 سال میں ایسا نہیں ہوا کہ فیصلہ جاری ہونے کے بعد تبدیل ہوا ہو، لیکن یہاں تین دن کے بعد ایک فیصلہ تبدیل کردیا گیا، کیا یہ عدالت کے خلاف بات نہیں ہے؟ ان کی یہ بات توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ میں اب بھی اپنے الفاظ پر قام ہوں، نیب پراسیکیوٹر نے انتہای سخت بات کی جو انھیں واپس لینی چاہیے۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ جملہ توہین آمیز ہے تو آپ کو اس واپس لینا چاہیے ۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو اس مسلے پر مزید بحث کرنے سے روک دیا اور نیب پراسیکیوٹر کو ضمانت کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ آپ صرف کیس پر بات کریں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف نے 1990 میں 21 لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے، وہ 1997 میں وزیراعلی پنجاب بنے، اور 1998 میں یہ 21 لاکھ سے 1 کروڑ 48 لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں، 2018 میں انکے اثاثوں کی مالیت 7 ارب 32 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 96 ایچ ماڈل ٹان لاہور کی پراپرٹی نصرت شہباز کے نام ہے، اس کی مالیت 128 ملین سے زائد ہے، اس گھر کو 2010 سے 2018 سی ایم آفس بنایا گیا، جب ٹی ٹیز کی رقم آنا شروع ہوئیں اسکے بعد پراپرٹیز بننا شروع ہوئیں، آج وہ پراپرٹیز کج تفصیلات پیش کریں گے جو انہیں وراثت میں نہیں ملیں، 2005 سے پہلے انکے پاس کوئی پراپرٹی نہیں تھی، نشاط لارجز ڈونگا گلی کی پراپرٹی کی مالیت 57 ملین سے زاید کی ہے، یہ پراپرٹی نصرت شہباز کے نام پر ہے۔ عدالت کے فل فل بنچ نے دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے شہبازشریف کی ضمانت منظور کرلی۔بینچ کے تینوں ججز نے متفقہ طور پر شہبازشریف کی درخواست منظور کی اور کسی جج نے اعتراض نہیں اٹھایا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ میں جسٹس علی باقر نجفی،جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی شامل تھے۔ قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی درخواست ضمانت14 اپریل کو منظور کی تھی۔شہباز شریف کی ضمانت ایک جج نے منظور اور ایک نے مسترد کر دی تھی۔ شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر جسٹس اسجد جاوید نے اختلافی نوٹ لکھا۔ عدالت نے شہباز شریف کو 50 پچاس لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اگر سب کچھ قانون کے تحت ڈکلیئر ہو تو کیا اسی قانون کے تحت نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ تحریری فیصلے میں 2 رکنی بینچ ارکان نے الگ الگ نوٹ جاری کیے تھے۔ جسٹس سرفراز ڈوگر نے لکھا ہم نے ضمانت مشاورت سے منظور کی تھی لیکن جسٹس اسجد نے کہا اختلافی نوٹ لکھوں گا۔ ضمانت کے فیصلے پردو رکنی بینچ میں اختلاف کے بعد ریفری جج مقرر کیے گئے تھے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ نے ہماری بے گناہی کی گواہی دی ہے، سلیکٹڈ حکمران نے قوم کے تین سال کیوں ضائع کیے، ملک میں صرف انتقام اور بربادی کی گئی۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکمران نے ملک کو تباہ کر دیا ہے، تین سالوں میں ملک کی معیشت بدنام ہوئی اور صرف انتقام کی سیاست کی گئی، آج انتقام کی سیاست زمین بوس ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کٹھ پتلی سلیکٹڈ حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان آگے بڑھے گا۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ ملک میں صاف شفاف انتخابات کروائے جائیں، تمام مسائل کاواحد حل فری فیئر الیکشن ہے، عوام کے ووٹ سے حکومت بنے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں