بغداد، امریکی سفارتخانے پر راکٹ فائر،گرین زون دھماکوں سے گونج اٹھا

بغدادا(سی این پی)مشرق وسطی میں بڑھتی ہوئی کشیدہ صوتحال میں ایک بار پھرعراق کا گرین زون دھماکوں سے گونج اٹھا ۔ بغداد میں امریکی سفارت خانے کے قریب پانچ راکٹ گرائے گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کی رات امریکی سفارت خانے پر پانچ راکٹ گرائے گئے جس میں سے ایک راکٹ سفارت خانے کے کیفے ٹیریا پر بھی گرا ۔ حملے میں ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔حملے کے بعدبغداد میں قائم امریکی سفارتخانہ خالی کروالیاگیا ۔ میڈیارپورٹس کے مطابق راکٹ حملے میں زخمیوں کی تعداد میں اضافے کاخدشہ ہے۔امدادی کارروائیوں کیلئے ہیلی کاپٹرسفارتخانہ پہنچ گیا ۔ بغداد کے گرین زون میں امریکا سمیت کئی ملکوں کے سفارت خانے موجود ہیں۔ 9جنوری کو بھی ایران کی جانب سے راکٹ گرائے گئے تھے۔ یہ حملہ ایران نے عراقی ٹھکانوں پر امریکی اور دیگر اتحادی افواج کے ٹھکانے پر بیلسٹک میزائل داغنے کے تقریبا 24 گھنٹے بعد کیا تھا۔ حملے ایک امریکی ڈرون حملے کی جوابی کارروائی میں کئے گئے تھے ۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس ایرانی حملے میں کوئی امریکی یا عراقی فوجی ہلاک نہیں ہوا، فوجی اڈے کو معمولی نقصان پہنچا۔انہوں نے مزید کہا کہ جب تک میں صدر ہوں ایران کوایٹمی ہتھیا ر حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ٹرمپ نے ایران کو امن کا سگنل بھی دیا اور کہا کہ امریکا نے داعش کے ابوبکر البغدادی کو ہلاک کیا، داعش ایران کی فطری دشمن ہے، وقت آ گیا ہے کہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کام کیا جائے۔واضح رہے کہ 3 جنوری 2020 کو عراقی ملٹری بیس اور بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے میجر جنرل قاسم سلیمانی ، اور مہدی مہندس سمیت ایرانی ملیشیا کے پانچ افراد اور دو مہمان جاں بحق ہوئے تھے جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے ۔فضائی حملے میں جاں بحق ہونیو الے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب کے بیرون ملک شعبہ کے انچارج تھے،جبکہ مہدی المہندس ایران نواز عراقی ملیشیا کے ڈپٹی کمانڈر تھے۔قاسم سلیمانی اور مہدی مہندس کا قافلہ ایئرپورٹ کی حدود میں تھا جب تین میزائل آ کر گرے۔ حملے سے پہلے امریکی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ایران عراق میں امریکی مفادات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پینٹاگون نے بھی امریکی حملوں کی تصدیق کردی تھی۔ پینٹا گون سے جاری بیان کے مطابق حملہ ایران کی جانب سیمستقبل میں کیے جانیوالے حملوں کے منصوبوں کو روکنے کیلئے کیاگیا ۔ایران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے ایک فضائی حملے میں ہلاک کئے جانے کے بعد تہران اور واشنگٹن کے مابین تنا بڑھا ۔ٹرمپ کے مطابق یہ کارروائی کسی جنگ کو شروع کرنے کے لئے نہیں کی گئی تھی۔جنرل سلیمانی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔وہ القدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے ایران کے مشرق وسطی کی کارروائیوں کی رہنمائی کر رہے تھے ، اور انھیں ملک و بیرون ملک ایک بہادر شخصیت کی حیثیت سے ہمیشہ سراہا گیا ۔دوسری جانب امریکہ نے کمانڈر جنرل کو سینکڑوں امریکی اہلکاروں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ایرانی انتقام کی دھمکیوں کے جواب میں امریکا نے مشرق وسطی میں 3000 مزید فوج بھیجی اور اپنے شہریوں کو عراق چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ نیٹو نے عراق میں فوجیوں کے لئے سیکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر اپنے تربیتی مشن کو بھی معطل کردیا ۔ایران نے جنرل سلیمانی کی موت کا سنگین انتقام لینے کے عزم کا اظہار کیا اور 2015 کے جوہری معاہدے سے بھی دستبرداری کا اعلان کیا ۔ایک ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطی کی صورتحال کو حل کرنے کے لئے نیٹو کے سفیروں نے برسلزمیں ملاقات کی ، اورایران کو مزید تشدد اور اشتعال انگیزی سے بچنے پرزوردیاتھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں