مقبوضہ وادی کشمیر میں پانچ اگست سے اب تک چار ہزار سے زائد افراد گرفتار

سری نگر(سی این پی)بھارت کی قابض افواج مقبوضہ وادی کشمیر میں پانچ اگست سے اب تک چار ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔ اس بات کا اعتراف خود بھارت نے سرکاری طور پر کیا ہے۔بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے پانچ اگست 2019 سے مقبوضہ وادی کشمیر میں کرفیو نافذ کررکھا ہے، مواصلاتی نظام معطل ہے، اشیائے خور و نوش کا قحط ہے، ادویات نا پید ہیں اور کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔عالمی خبر رساں ایجنسی نے بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار پر مبنی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ وادی سے اب تک تین ہزار 800 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے صرف دو ہزار 600 کو تفتیش کے بعد رہا کیا گیا۔مقبوضہ وادی کشمیر کے دو سابق وزرا اعلی سمیت تقریبا 200 سیاستدان اس وقت گرفتار ہیں جن میں سے 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت کی حکمراں جماعت کی مخالف سیاسی جماعتوں سے ہے۔بھارتی اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار سے زائد گرفتار افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے پتھرا کیا اور دیگر شرپسندانہ کارروائیوں کا حصہ بنے۔ اتوار کے دن 85 گرفتار افراد کو بھارت کی شمالی ریاست آگرہ کی جیل منتقل کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے 13 پولیس اسٹیشنوں کی حدود سے تقریبا ایک ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق زیرِ حراست افراد میں 80 سے زائد کا تعلق پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی سے جو وادی چنار میں بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی سابقہ سیاسی اتحادی جماعت ہے۔بھارتی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گرفتار 70 گرفتار افراد کا تعلق نیشنل کانفرنس سے ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ وادی کشمیر کی سیاست میں نمایاں مقام کی حامل قراردی جاتی ہے۔ دستیاب اعداد و شما رکے مطابق گرفتار شدگان میں سے ایک درجن کا تعلق کانگریس سے بتایا جاتا ہے۔مقبوضہ وادی کشمیر سے پولیس نے بھارتی حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہوں سے تعلق کے الزام میں 150 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔سرکاری رپورٹ کے مطابق تقریبا 12 سو سے زائد افراد کئی روز سے گرفتار ہونے کے باوجود قانونی حقوق سے محروم ہیں جب کہ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں بھی نظربند ہے۔مقبوضہ وادی کشمیر سے گرفتار کیے جانے والے ہزاروں افراد پر بھارتی حکومت نے اپنے کالے قانون پبلک سفیٹی ایکٹ کا بھی اطلاق کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کی قانونی امداد سے محروم ہوگئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں