اسٹیل ملز کے تمام ملازمین اور افسران کو نکال کر اسے تالا لگانے کا حکم دیں گے، جسٹس گلزار احمد

اسلام آباد(سی این پی) چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ اسٹیل ملز کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں اس کے تمام افسران اور ملازمین کو نکال کر تالا لگانے کا حکم دیں گے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اسٹیل ملز ملازمین کے پروموشن کے کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیدیا۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟ چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل ملز سے نکالیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، مل میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ رہے گا۔ اس موقع پر اسٹیل ملز کے وکیل نے بتایا کہ مل کا روزانہ کا خرچہ 2 کروڑ سے کم کرکے ایک کروڑ کردیا گیا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہوگی، جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی، ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی، مل میں بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک دن بھی کام نہیں کیا، مل کا 212 ارب کا قرضہ کون ادا کرے گا؟ معزز چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکرٹریز صرف لیٹربازی ہی کررہے ہیں جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو کیوں رکھا ہوا ہے، سیکرٹریز کے کام نا کرنے کی وجہ سے ہی ملک کا ستیاناس ہوا، سیکرٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نا پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے، اب پتا نہیں کیا ہوگیا۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کے بقیہ 3700 ملازمین کو آج فارغ کرنے کا حکم دیں گے، مل کے 437 میں سے 390 افسران کو بھی آج فارغ کریں گے، سب کو فارغ کرنے اور آج اسٹیل مل کو تالا لگانے کا حکم دیں گے، عملی طور پر اسٹیل مل کا کوئی وجود نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں