ہائی کورٹ پر حملہ، وکلا تحریک کے شہدا کی تذلیل ہے، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد(سی این پی) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کردیا ہے کہ سات سال میں کسی غیر قانونی کام کو سپورٹ کیا نہ ہی کروں گا، ایسے واقعات پر کسی صورت بھی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران دو روز قبل پیش آنیوالے واقعے کا ذکر ہوا، اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ ججز چیمبر میں وہ کتنی دیر تک محصور رہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بتایا کہ جب مشتعل وکلا کا گروہ ہائیکورٹ میں داخل ہوا تو میں باہر آیا، میں دروازے پر پہنچا تو وکلا دروازہ توڑ چکے تھے، اس دوران پولیس میری حفاظت کیلئے آئی تو میں نے انہیں خود پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ وکلا کی جانب سے مجھے تین گھنٹے تک محصور رکھا گیا مگر میں کھڑا رہا،چھ ہزار کی بار میں صرف 100وکلا نے حملہ کیا بدنامی سب کی ہوئی، توقع نہیں کر سکتا تھا کہ یہ مجھ پر حملے کر سکتے ہیں، واضح کردوں کہ سات سال میں کسی غیر قانونی کام کو سپورٹ کیا نہ ہی کروں گا۔چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ گملوں کا کیا قصورتھا ؟ شیشے کیوں توڑے؟ ہم کس طرف چل پڑے؟ قائد اعظم نے پروفیشنل کنڈکٹ کی وجہ سے یہ پاکستان حاصل کیا، ہائیکورٹ پر حملہ وکلا تحریک کے نوے شہدا کی تذلیل ہے، یہ حملہ میری ذات نہیں عدلیہ اور ادارے پرہے، مجھ سمیت کوئی قانون سے بالا نہیں، قانون اپنا راستہ بنائیگا۔اس موقع پر سینئر وکیل عبدالرف نے چیف جسٹس کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہو گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا جب واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائیگا، یہ عدالت بار کونسل سے امید کرتی ہے کہ ملوث افراد کیخلاف کارروائی کرے، ایسے واقعات پرکسی صورت بھی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک چیز یاد رکھیں تاریخ کبھی غلط لکھی نہیں جاتی، وکیل اپنی عزت خود کرا سکتے ہیں 95 فیصد وکلا تبدیلی لا سکتے ہیں، ہر وکیل اپنی عزت خود بنا سکتا ہے عدالت نہیں بنا سکتی، میں ایکشن لے سکتا تھا میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا، ایکشن لیتا تو کہتے اپنے ہی ایڈووکیٹس کیخلاف کارروائی کرائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں