ذیابیطس ایک نئی قومی ایمرجنسی، روزانہ 1100 افراد ذیابیطس یا اس کی پیچیدگیوں سے مر رہے ہیں،پناہ

کوئٹہ(سی این پی)پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد کے زیر اہتمام کوئٹہ میں ”غیر متعدی امراض” کے موضوع پر ایک اہم میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں پناہ کے جنرل سیکرٹری اور ڈائریکٹر آپریشنزثناء اللہ گھمن نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے،اس موقع پرہیلتھ سروسز اکیڈیمی کے وائس چانسلر شہزاد علی خان، منور حسین، کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر،ان کے ہمراہ موجود تھے،بطورمہمانان گرامی ڈاکٹرمحمدنسیم اللہ ڈائریکٹر انسٹیٹیویٹ آف پبلک ہیلتھ کوئٹہ،علاؤدین کاکٹراسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان،ندیم سجاد رجسٹرار ہیلتھ سروسز اکیڈیمی اسلام آباد،ڈاکٹر علی ناصر بگٹی،ڈاکٹرنورقاضی،ڈاکٹر واحدبلوچ صوبائی منیجر یوایس ایڈ،حلیمہ بانو،صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹ سلمان اشرف ودیگرنے شرکت کی،جب کہ صدر پناہ میجر جنرل (ر) مسعود رحمان کیانی، پروفیسر عبدالباسط، جنرل سیکرٹری ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان، افشاں تحسین باجوہ چیئرپرسن نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ اور دیگر نے ورکشاپ سے خطاب کیا۔میڈیا سیشن میں صحافیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں، وکلاء اور سرکاری محکموں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پناہ کے جنرل سیکرٹری اور ڈائریکٹر آپریشنز ثناء اللہ گھمن نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ پناہ عام لوگوں اور پالیسی سازوں کو مختلف بیماریوں سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر متعدی امراض سے ہونے والی تقریباً 80 فیصد اموات دل، ذیابیطس، کینسر اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس ورکشاپ کا مقصد میڈیا کو غیر متعدی امراض بالخصوص ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں حساس بنانا ہے، اور بیماری اور اموات کو کم کرنے کے لیے صحت مند خوراک کی پالیسی کی وکالت کرنے میں مدد حاصل کرنا ہےڈاکٹرمحمدنسیم اللہ ڈائریکٹر انسٹیٹیویٹ آف پبلک ہیلتھ کوئٹہ نے کہاکہ صحت ہماری اولین ترجیح ہے،جس پرسنجیدیگی سے سوچناہوگا، زیادہ وزن اور موٹاپا کینسر کی 15 بڑی اقسام میں سے 13 کے لیے خطرے کے عوامل ہیں۔ ایس ایس بی کی کھپت میں کمی موٹاپے اور خوراک سے متعلق بیماریوں کے پھیلاؤ کو کم کر سکتی ہے۔علاؤدین کاکٹراسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ شوگر میٹھے مشروبات (SSBs) موٹاپے اور ان این سی ڈیز کی خوراک سے متعلق ایک بڑی وجہ ہے۔ درحقیقت، ٹھوس خوراک سے حاصل ہونے والی کیلوریز کے مقابلے، SSBs میں پائی جانے والی مائع کیلوریز کم تسلی بخش ہوتی ہیں اور مساوی مقدار میں ٹھوس کھانے کی کیلوریز کھانے کے مقابلے میں معموریت کا احساس نہیں دلاتی ہیں۔ منور حسین، کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹرز نے کہا کہ شوگر سے میٹھے مشروبات (SSBs) پینا، دیگر رویوں سے قطع نظر، وزن میں اضافے، زیادہ وزن اور موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے۔ SSBs کی بڑھتی ہوئی کھپت اور کیلوری کی بڑھتی ہوئی مقدار کے درمیان ایک واضح تعلق ہے۔ ان مشروبات میں موجود شکر جسم کے میٹابولزم کو تبدیل کرتی ہے، جس سے انسولین، کولیسٹرول اور میٹابولائٹس متاثر ہوتے ہیں جو ہائی بلڈ پریشر اور سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ جسم میں یہ تبدیلیاں ٹائپ 2 ذیابیطس، قلبی بیماری، دانتوں کی خرابی، میٹابولک سنڈروم اور جگر کی بیماری کا خطرہ بڑھاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 11 مطالعات کے میٹا تجزیہ (جس میں 300,000 سے زیادہ شرکاء شامل ہیں) نے SSB کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کے درمیان واضح تعلق پایا۔ 8 مطالعات (بشمول 280,000 سے زیادہ شرکاء) کے ایک اور میٹا تجزیہ سے پتہ چلا کہ SSBs کا زیادہ استعمال ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کے 30% زیادہ خطرے سے وابستہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ SSBs پر ٹیکس بڑھانا اس کے استعمال، موٹاپے اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کو کم کرنے کے لیے ثبوت پر مبنی حکمت عملی ہے۔پروفیسر عبدالباسط، جنرل سیکرٹری ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے کیسز پاکستانی عوام کی صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ دو سالوں میں پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 19 ملین سے بڑھ کر 33 ملین ہو گئی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ذیابیطس پر سالانہ اخراجات 2021 میں بڑھ کر 2640 ملین امریکی ڈالر ہو گئے ہیں جو ہماری معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان تمام قسم کے شکر والے مشروبات پر ٹیکس بڑھانے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ زیادہ اثر کے لیے چینی کی کثافت کی بنیاد پر ٹیکس لگایا جائے۔ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر شہزاد علی خان نے کہا کہ غیر متعدی امراض سے بچاؤ میں خوراک کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ہماری خوراک کو درست کرنے سے بیماری اور اموات کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چینی، نمک اور چکنائی کا زیادہ استعمال غیر متعدی امراض کے خطرے کے بڑے عوامل میں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ NCDs پر غذائی خطرے کے عوامل کو کم کرنے کے لیے عوامی بیداری اور پالیسی میں تبدیلیاں اہم ہیں۔چیئرپرسن نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ افشاں تحسین باجوہ نے کہا کہ اچھی غذائیت بچوں کا بنیادی حق ہے۔ بدقسمتی سے بچوں کی غذائی عادات اشتہارات کے طوفان سے متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں میں موٹاپا اور زیادہ وزن پچھلے سات سالوں میں دوگنا ہو گیا ہے جو تشویشناک ہے۔ نوجوان آبادی کو اب ڈی جیسے این سی ڈی کی تشخیص ہوئی ہے۔ میڈیاسیشن کے اختتام پرتمام صحافی نمائندوں نے ورکشاپ کومفید ترقرار دیتے ہوئے کہاکہ ہماراتعاون شامل حال رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں