اگر سسٹم اتنا مضبوط نہیں کہ آئین پر عمل کروا سکے تو سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑتا ہے،چیف جسٹس

اسلام آباد(سی این پی)آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر سسٹم اتنا مضبوط نہیں کہ آئین پر عمل کروا سکے تو سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑتا ہے۔آرٹیکل63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سربراہ ممبر کو انحراف پر نوٹس دے تو وہ جماعت کا حصہ نہیں رہتا۔مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیا ایک ممبر کو صفائی کا موقع دیے بغیر تاحیات نااہل کیا جاسکتا ہے؟ آرٹیکل 63 اے کے ساتھ 62 ون ایف کو ملاکر نہیں پڑھا جا سکتا۔مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے اندر ہی انحراف کی سزا موجود ہے، صدر ہارس ٹریڈنگ پر فکرمند ہیں تو تحریک عدم اعتماد کا انتظار کیوں کیا؟ ریفرنس کی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے ساتھ ٹائمنگ اسے متنازع بناتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں منحرفین کو سیاسی جماعتوں نے دوبارہ شامل کر لیا، دیکھنا ہوگا کہ انحراف پر پارٹی سربراہ نے کیا ایکشن لیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئینی وجوہات کو دیکھنا ہے، 63 اے کے قانونی نتائج ہوں گے، اگر سسٹم اتنا مضبوط نہیں کہ آئین پر عمل کروا سکے تو سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں