آئی ایم ایف کا صارفین پر 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج عائد کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد(سی این پی) چائنا ڈیولپمنٹ بینک (سی ڈی بی) سے 700 ملین ڈالر کے قرض کی ری فنانسنگ کے اہم معاہدے کے ساتھ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پاور ہولڈنگ کمپنی پر پڑے مارک اپ کی وصولی کے لیے صارفین پر تقریباً 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج عائد کرے۔ چینی بینکوں سے تجارتی قرضوں کی ری فنانسنگ کے معاملے پر حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ تمام چینی پختہ قرضوں کو جلد ہی ری فنانس کیا جائے گا۔ تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق دو مزید تجارتی قرضوں کی ری فنانسنگ متوقع ہے جس میں 500 ملین ڈالرز اور 800 ملین ڈالرز شامل ہیں تو مجموعی طور پر پاکستان فروری کے آخر یا مارچ 2023 کے پہلے ہفتے تک 2 ارب ڈالرز تک کے چینی قرضوں کی ری فنانسنگ حاصل کرنے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن نقصان میں جانے والا پاور سیکٹر اب بھی مشکل مسئلہ ہے کیونکہ اب تک یہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ حکومت کو اسٹاف لیول معاہدے کی جانب بڑھنے کیلئے پاور سیکٹر پر ایک اور سرچارج لگانے کے بارے میں اپنا ذہن بنانا ہوگا۔
پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کی جانب سے منگل کی شام کو اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ورچوئل بات چیت ہوئی اور دونوں فریقوں نے ایک اور سرچارج لگانے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا لیکن اس کی صحیح رقم ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ آئی ایم ایف سیکٹر کے مسلسل غیرمعمولی نقصانات کے پیش نظر فوری طور پر تقریباً 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی فریق کو آگاہ کیا کہ ملک کی بقاء یا نقصان میں جانے والا پاور سیکٹر جمود کے ساتھ نہیں چل سکتا اس لیے ایک منٹ ضائع کیے بغیر اس شعبے میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال 2021-22 کے دوران مجموعی طور پر 1600 ارب روپے کے نقصانات کی ادائیگی کی جو بجٹ دستاویزات میں دکھائے گئے دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے، گردشی قرضے اور پاور سیکٹر میں جمع ہونے والے خسارے کا یہ عفریت پاکستان کی معیشت کو ڈبو دے گا۔ جب پاکستانی مذاکرات کاروں میں سے ایک سے رابطہ کیا گیا اور ان سے بجلی سرچارج کے معاملے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ سرچارج کے معاملے پر بات کر رہے ہیں، حکومت کی صفوں میں اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب بھی کنفیوژن موجود ہے جو اب تک عملے کی سطح کے معاہدے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جیسا کہ حکومت کے کچھ حلقے یہ موقف اختیار کررہے ہیں کہ ایک اور بجلی سرچارج لگا کر ٹیرف بڑھانے کے بجائے بہتر آمدنی یا اخراجات میں کمی کے ذریعے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں