آئین میں جب 90 روز لکھا ہے تو اس پر تکرار کیوں ہے؟ چیف جسٹس

اسلام آباد(سی این پی)چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے کہنا ہے کہ آئین میں جب 90 روز لکھا ہے تو اس پر تکرار کیوں ہے؟سپریم کورٹ بار کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ریٹائر ہونے جا رہا ہوں، میرا عدلیہ سے وہ تعلق نہیں رہے گا جو 20 سال سے ہے، پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں تواتر سے نئے آئینی نکات پر لوگ حقوق مانگنے آتے تھے، ہمارا عزم یہ بھی تھا کہ 54 ہزار کیسز کم کریں گے لیکن زیر التوا کیسز کو 2 ہزار کی تعداد میں کم کیا اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا، تمام ان ججز کا مشکور ہوں جنہوں نے میرے ساتھ شرکت کی اور فیصلے دیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے تمام ججز کے آزاد ہونے پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، آئینی اصولوں پر ہماری عدالت میں سب کی رائے پر کوئی تضاد نہیں ہے، ججز کا آپس میں اختلاف صرف اس حد تک ہے کہ آئینی کیسز براہ راست سپریم کورٹ آنے چاہئیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب سو موٹو ہوا کرتے تھے، سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد دوسرے کیسز کی وجہ سے بڑھی، نہیں چاہتے یہ دوسرے کیسز بار بار ہمارے سامنے آئیں، چاہتے ہیں ملکی حالات توازن سے چلیں تاکہ یہ مقدمات ہمارے سامنے نا آئیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا دعا ہے ارباب اختیار تمام معاملات آئین کے مطابق طے کریں، آئین میں جب 90 روز لکھا ہوا ہے تو اس پر تکرار کیوں ہے؟خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر کو نئے چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں