پاکستانی نوجوان کی رنگارنگ نسلی ثقافتی تجربات کے ذریعے چین سے متعلق آگاہی میں اضافہ

بیجنگ (سی این پی )چین میں گوانگ شی ژوآنگ خودمختار خطے کے شہر بائیسے میں مختلف اصطلاحات “باتی ” اور “بی نونگ ” نے ایک غیر متوقع تعلق قائم کیا ہے جو پاکستان سے ایک نوجوان کی آمد سے پیدا ہوا ۔اگرچہ “باتی ” کی اصطلاح چینی انٹرنیٹ صارفین پاکستانی کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ “بی نونگ ” کا مطلب ژوآنگ زبان میں “بھائی” ہے جو چین کی نسلی اقلیتوں میں ایک کی زبان ہے۔گوانگ شی کے روایتی لوک تہوار “سان یو سان” کے موقع پر بھرپور ثقافتی تبادلے نظر آتے ہیں، مختلف نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد گیتوں کی دھنوں، غیرمعمولی ثقافتی ورثہ نمائش اور نسلی کھیلوں میں پرجوش انداز میں شامل ہوکر ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔
ان میں پاکستانی حافظ تنویرحمید بھی شامل ہیں جو ژوانگ نسلی لباس میں ملبوس اور ایک دلکش ویڈیو کے ذریعے سوشل میڈیا صارفین کو گرم جوشی سے دعوت دے رہے ہیں۔

حافظ نےایک دہائی قبل چین میں تعلیمی سفر شروع کیا اور کلینیکل میڈیسن میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں گوانگ شی کے علاقے بائیسے میں محبت ملی جہاں انہوں نے ایک مقامی خاتون سے شادی کرلی اور بعد میں قریبی کالج میں غیر ملکی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔انہوں نے خود کو مقامی ثقافت میں ضم کرلیا ہے۔ حافظ لسانی اور ثقافتی انضمام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ انہوں نے ثقافتی قبولیت کے رجحان کی تائید کی جس کے ذریعے مقامی زبانوں اور رسم و رواج کو اپنانے سے کمیونٹی زندگی کے ساتھ گہرے تعلق کو فروغ ملتا ہے۔


گوانگ شی چین میں سب سے بڑی اقلیتی آبادی کے ساتھ خود مختار خطہ ہے جو قدرتی خوبصورتی اور مختلف ثقافتی تنوع سے مالامال ہے ۔ خوبصورت مناظر اور شاندار فصلوں کی موجودگی “مومے ” جیسی روایات (گوانگ شی خطے بائیسےعلاقے کی انوکھی ژوآنگ نسلی ثقافتی روایتی دستکاری ) ہان جون کی بیوی ہان می جوان جیسے کاریگروں کے ہنر مند ہاتھوں میں نشوونما پاتی ہے۔ وہ مل جل کر عمدہ دستکاریوں کے نمونے تیار کرتے ہیں جو غیر معمولی ثقافتی ورثہ کی کشش کا ثبوت ہیں۔ثقافتی تبادلےکےجذبےسےمتاثر ہان جون “سان یو سان” تہوار سے لیکر بائیسے آم میلے تک لوک سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور کو اپناتے ہوئےوہ مقامی پیداوار کے فروغ کے لئے ای کامرس پلیٹ فارمز کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے دیہی کسانوں اور شہری صارفین میں فاصلے مٹ جاتے ہیں۔

حافظ نے اپنے کیمرے کی مدد سے چین کی مختلف ثقافتی داستانوں کی چاشنی کو عکس بند کیا اور روایت اور اختراع داستانیں یکجا کیں۔ ان کی ویڈیوز ایک پورٹل کی طرز پر کام کرتے ہوئے چینی ثقافت کی بھرپور جھلکیاں پیش کرکے دنیا بھر کے ناظرین میں تجسس پیدا کرتی ہیں۔حافظ نے کہا کہ چین میں مختلف نسلی اتحاد سرفہرست ہے اور ہر نسلی گروہ نے اپنے منفرد رسم و رواج اور روایات کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ چین کی کثیر الجہتی شناخت کو تفصیل سے بیان کریں اور مسافروں کو ثقافتی کھوج کے سفر کی ترغیب دیں۔حافظ واضح طور کہتے ہیں کہ ثقافت مشترکہ تجربات اور اجتماعی وراثت سے پروان چڑھتی ہے اوروہ اس ثقافتی سفر میں مزید افراد کی شرکت کے بے صبری سے منتظر رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں