امریکی ارکان کانگریس کی طرف سے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال پراظہار تشویش

سری نگر (سی این پی)امریکی ارکان کانگریس نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کانگریس کے رکن ٹام لینٹوز کے انسانی حقوق کمیشن کی گزشتہ روزہونے والی سماعت کے دوران تاریخی تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ارکان کانگریس نے 22اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کی طرح کے اقدامات کی سفارش کی۔ بھارت نے 5 اگست کو یکطرفہ طورپر آئین کی دفعہ 370کو منسوخ کر کے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو یونین علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ بھارت نے مقبوضہ علاقے میں 5اگست سے سخت فوجی محاصرہ اور ذرائع مواصلات پر قدغن عائد کر رکھی ہے ۔ امریکی ایوان نمائندگان کی پہلی بھارت نژاد رکن پرمیلا جیاپال نے اس موقع پر کشمیرمیں بھارتی حکومت کے اقدامات پر شدید تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہاکہ وہ چاہتی ہیں کہ کانگریس ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر کے بارے میں پالیسیوں پر نظر ثانی کیلئے بھارت کو واضح پیغام دے۔ ان کے ہمراہ شیلا جیکسن لی ، ڈیوڈ ٹرون اور ڈیوڈ سیسیلین بھی موجود تھے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کے بھارتی حکومت کے اقدامات پر کڑی تنقید کی ۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کی کمشنر ارونیما بھگوانے کہاکہ بھارتی حکومت کے اقدامات کے باعث ملک میں مسلمانوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے سماعت کے دوران بتایا کہ بھار ت بھر میں سیاسی رہنما اور کمیونٹی لیڈر زایک ایسے نظریے پر عمل پیرا ہیں جس کے تحت بھارت کو ایک ہندوریاست میں تبدیل کرنا ضروری ہے اوروہ سمجھتے ہیں ملک میں موجود دیگر اقلیتیں غیر ملکی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بھارت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک جاری ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کو جموں وکشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی اورلوگوں کو عبادت کرنے اور مذہبی تقاریب میں شرکت سے روکنے اور صحت عامہ اور دیگر بنیادی سہولتوں تک لوگوں کی عدم رسائی پر شدید تشویش ہے ۔ ارونیما بھگوانے کہاکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں موبائیل اور انٹرنیٹ سروسز معطل کررکھی ہیں اور عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کی جارہی ہیں ۔انہوںنے کہاکہ کمیشن کو مساجد بند کئے جانے ، امام صاحبان اور مسلم کمیونٹی لیڈروں کی گرفتاریوں اور عام شہریوں اور تاجروں پر تشدد کی اطلاعات بھی ملی ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں