برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین مسئلہ کشمیر  حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں، صدر آزاد جموں وکشمیر

اسلام آباد (سی این پی )آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پرامن ذرائع سے حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ برطانیہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے ایسی ایک گولی بھی بھارت کو نہیں ملنی چاہیے جس سے وہ مقبوضہ کشمیر میں بچوں، خواتین اور بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنائے۔ برطانیہ بھارت کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے ساتھ مشروط کرے۔ کشمیریوں کی مدد کے لئے انسانی فنڈ قائم کرنے کے علاوہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے پر بھارت کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ، ارتداد سرمایہ اور پابندیوں (بی ڈی ایس)کی مہم شروع کی جائے تاکہ نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہندو فسطائی حکومت کو کشمیریوں کے انسانی حقوق اور ان کے حق خودارادیت کا احترام کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ بات انہوں نے تحریک کشمیر برطانیہ کے زیر اہتمام کشمیر میں دوہرا لاک ڈائون اور عالمی ردعمل کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ کانفرنس سے کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی، سکاٹش نیشنل پارٹی، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین پارلیمان کے علاوہ نامور سکالرز اور دانشوروں نے بھی خطاب کیا۔ اس کانفرنس کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے برطانوی اراکین پارلیمان پر زور دیا کہ وہ برطانیہ کی سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر سیکرٹری خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر کے ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سنگین صورتحال پر بات چیت کریں اور برطانیہ کی حکومت کو مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تنازعہ قرار دے کر سفارتی فرار اختیار کرنے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی پارلیمان کے اراکین کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری حقوق انسانی کی پامالیوں، قتل و غارت، ایذا رسانی، خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور اندھا دھند گرفتاریوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں جو بھارت کی فوج لاک ڈاون کی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کانفرنس کے شرکاکو بتایا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک لاک ڈاون لگایا تھا اور اب کرونا وائرس کی وبا کی آڑ میں ایک اور لاک ڈاون لگا کر مقبوضہ ریاست کے شہریوں کی زندگی جہنم زار بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اپریل میں بھارتی حکومت نے ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے لئے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کرائے اور اس طرح بھارت نے کشمیریوں کے روزگار، حصول جائیداد، ملازمتوں اور تعلیمی وظائف کے حصول کے حقوق بھی چھین لئے ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر دوبارہ قبضہ اور ریاست کے حصے بخرے کرنے کے عمل کو استعماریت اور نو آبادکاری سے تشبہیہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی، جنیوا کنونشن، انٹرنیشنل کرمینل کورٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی نفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے چند دنوں کے اندر بھارت کے پچیس ہزار ہندو شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کر کے انہیں متنازعہ علاقے میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اسی طرح بھارت کے مسلم شہریوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے اصل باشندوں کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ ریاست کے شہری ہیں یا نہیں ایک مشکل صورتحال دوچار کر دیا ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اگر ہم نے بھارت کا ہاتھ نہ روکا تو جو کشمیر آج موجود ہے وہ کل نہیں ہو گا کیونکہ بھارت کی حکومت نے بیس لاکھ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں لا کر بسانے کامنصوبہ اپنایا ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس حکومت کے تحت بھارت میں مختلف مذاہب کے درمیان دوری اور تفاوت کا ذکر کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال گزشتہ صدی کے جرمنی سے ملتی ہے جب ہٹلر کی نازی پارٹی نے اپنے ملک میں یہودی شہریوں کو اچھوت بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت پورا مقبوضہ جموں وکشمیر دوہرے لاک ڈاون میں ہے اور گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جا چکا ہے۔ خود جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ بائیس کشمیری جنگجووں کو گزشتہ چند ماہ میں ہلاک کیا گیا ہے۔ بھارتی قابض فوج کشمیر میں نسل کشی، نسل تطہیر میں مصروف ہے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ علاقے میں امن کے قیام کے لئے تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی میں خطہ میں ایٹمی جنگ کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے اور اگر یہ جنگ ہوئی تو اس سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے کشمیر کے حوالے سے بیانات پر بھارتی حکومت کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لے کیونکہ تنازعہ کشمیر پہلے ہی اس کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ برطانیہ کی پارلیمان میں تنازعہ کشمیر پر بحث کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے برطانیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں بھی زیر بحث لائے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاکو خبردار کیا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کوشش کرے گا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے نکالنے، تنازعہ کشمیر پر کسی قسم کی بحث کو رکوانے اور پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے فنڈز بند کرانے کی کوشش کرے۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام اور پاکستان بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن بھارت بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کشمیری عوام اقوام متحدہ، بااثر ممالک یا کسی بھی غیر جانبدار ملک یا ادارے کی طرف سے ثالثی کے ذریعے تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے تیار ہے لیکن بھارت ایسی ہر کوشش کی راہ میں کسی ایک یا دوسرے بہانے سے رکاوٹ کھڑی کرتا ہے۔ کانفرنس سے کنزویٹو فرینڈز آف کشمیر کے چیئرمین جمیز ڈیلی، شیڈو سیکرٹری آف سٹیٹ فار ٹرانسپورٹ جم میک مان، رکن پارلیمنٹ لیام باہر، یورپین پارلیمان کے سابق رکن فل بینن، رکن پارلیمان برینڈن او ہارا، نادیہ وائیٹ ہم، رکن پارلیمنٹ الیکس نورس، رکن پارلیمنٹ کرسچن ویکفورڈ، رکن پارلیمنٹ سٹیلا کریسی، رکن پارلیمنٹ ریچل ماسکل، ڈینش رائٹر، جین ٹیلر،تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر راجہ فہیم کیانی، حریت کانفرنس کے رہنما اور جموں کشمیر سالویشن موومنٹ کے چیئرمین الطاف بٹ، کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل آفیئرز کے چیئرمین الطاف احمد وانی نے بھی خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں