صحت اور کے پی کے حکومت

پروفیسر یحیٰ خالد
yahyakhalid42@gmail.com

پرانی بات ہے کہ ہم نے ایک فلم دیکھی تھی۔ فلم ہندوستانی تھی۔ اُس وقت پابندیوں کی کوئی بات نہیں تھی اس لئے پورے پاکستان میں دونوں ملکوں کی فلموں سینماؤں کی زینت بنتی تھیں۔ہندوستان میں فلموں کا موضوع عام طور پر راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں کے درباروں کے قصے موضوع بحث ہوتے تھے۔ جس فلم کی بات ہم کر رہے ہیں اُس کا نام” مسٹرچکرم ”تھا کہانی کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک بادشاہت میں جیسا کہ عام طور پرہوتا ہے ملک کا وزیر اعظم سازشیں کر کے بادشاہت کو ختم کر دیتا ہے۔ ایسے ہی اُس بادشاہت میں بھی وزیر اعظم نے سازش کر کے بادشاہ کو تخت سے اتار دیا اور سارے بادشاہی خاندان کو قتل کر دیا ۔ایسے میں ایک چھوٹے سے شہزاد ے کو ایک نمک خوار ملازم کسی نہ کسی طرح بچا کر دارالخلافہ سے باہر لے گیا۔ یوں شاہی خاندان کا ایک بچہ زندہ رہ جاتا ہے۔بچہ کسی طرح اپنی زندگی کو بر قرار رکھتا ہے اور اُس کے لئے وہ بسوں اور اڈوں پر یا کہیں بھی ایک مجمع لگاکر دانتوں کے منجن وغیرہ بیچتا ہے۔ بچے کو بچانے والا شخص نئے حکمران کے ہاں ہی رہتا ہے اور جوں جوں شہزادہ اپنی بلوغت کو پہنچتا جاتا ہے اُس کا ہمدرد درباری اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور ایک انقلاب لا کر غدار وزیر کو تخت سے اتار کر اُس بچے کو لا کر تخت پربٹھا دیاتا ہے ۔ اب جو ایک ایسا شخص بادشاہ بنتا ہے کہ جس کی ساری عمرایک خاص طریقے سے گزری ہے تو وہ جب اپنے دربار میں بات کرتا ہے تو اُس میں وہ منجن بیچنے والا جاگ جاتا ہے اور وہ دربار کو بھی ایک مجمع سمجھ کر خطاب کرتا ہے اور آگے والوں کو پیچھے اور پیچھے والوں کو آگے آنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح کھڑے لوگوں کو بیٹھنے اور بیٹھے لوگوں کو کھڑے ہونے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جب نا اہل لوگ یا ایسے لوگ جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو وہ بر سر اقتدار آتے ہیں تو وہ مسٹر چکرم ہی بن جاتے ہیں اور ایسے ایسے احکام صادر کرتے ہیں کہ جو نہایت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں ۔ ملک میں حالت یہ ہوئی ہوئی ہے کہ ڈینگی نے پورے ملک میں پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور کوئی شہباز شریف نہیں ہے کہ جو رات دن ایک کرے اور پورے پنجاب دوڑتا پھرے اور جب تک آرا م سے نہ بیٹھے کہ جب تک کہ ڈینگی پر قابو نہ پا لے ۔ یہاں تو یہ حالت ہے کہ ہمارے وزرائے اعلیٰ اپنے دفتروں سے باہر ہی نہیں نکلتے اور ہماری پنجاب کی وزیر صحت ہسپتالوںمیں جا جا کر ڈاکٹروں اور وزیر اعلیٰ پنجاب ڈی سی اوز کو تبدیل کرنے میں لگے ہیں۔ ادھر کے پی کے حکومت نے ،ایسے وقت میں کہ جب ڈاکٹروں کو ساری توجہ ڈینگی کیے مریضوں کی طرف دینی ہے ، ایک نیا ایکٹ لا یا ہے، جس میں ڈسٹرکٹ اینڈ ریجنل ہیلتھ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یعنی اب ڈاکٹروں کو کہ جنہوں نے اپنی لیاقت پر ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلے حاصل کئے اور پوری تندہی سے رات دن ایک کر کے پانچ سال میںیہ ڈگریاںحاصل کیں اب اُن کو ان پڑ ھ ریجنل اتھاریٹی اورڈسٹرکٹ اتھار یٹی کے لوگ کنٹرول کریں گے۔اصل میں یہ ہسپتالوں سے جان چھڑانے کے لئے ایک قدم ہے جس کے بعد سرکاری ہسپتال نجی ملکیت میں دے دیئے جائیں گے اور ڈاکٹرز جنہوں نے اپنا رات دن ایک کیا تھا وہ ان پڑھوں کے مرہون منت ہوں گے کہ وہ اُن کو نوکریاں بھی دیں اور اُن کو دن رات تنگ بھی کریں۔ نجی اداروں میں جو کچھ کارندوں کے ساتھ سلوک ہوتا ہے اُس سے سارے ہی واقف ہیں ریاست کو اولین فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت کی اور تعلیم کا بندوبست کرے۔اب لگتا ہے کہ ہماری ریاست اپنے اس بنیادی فرض سے جان چھڑانے کی کوشش میں ہے۔ جو ہمارے نزدیک ایک بہت ہی نامناسب رویہ ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولیا ت دینا تو ریاست کا بنیادی فرض ہے۔ اگر کوئی اس فرض میں نجی شعبہ ریاست کا ہاتھ بٹا رہاہے تو اس میں بھی حکومت اور عدالتوں کی جانب سے روڑ ے اٹکائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ آئے روز بعض باتوں پر نجی تعلیمی اداروں کو تنگ کیا جا رہاہے۔ اس میں نجی اداروں کی تکالیف کو نظر میں نہیں رکھا جاتااور یک طرفہ ٹریفک چلائی جاتی ہے۔ اب کے پی کے میں اور پنجاب میں بھی ڈاکٹر تنگ ہو کر ہڑتالیں کر رہے ہیں اور جس طرح اگلے دن پشاور میں ڈاکٹروں کے ساتھ سلوک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ پولیس نے ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج کیا اور بہت سے ڈاکٹروں کو کہ جو حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ان کو جیل میں ڈا ل دیا گیا ۔ کیا اس طرح ڈینگی کے خاتمے میں کے پی کے حکومت کو سہولت مل جائے گی ۔ اگر ایسا ہے توبہت اچھی بات ہو گی مگر جس طرح سے پورے صوبے میں ہسپتال ڈینگی کے ،مریضوں سے بھر رہے ہیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹڑوں کے مطالبات کو مانا جائے اور کچھ نہیں تو ڈینگی کے مریضوں پرہی رحم کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں