پاکستانی سفارت کاری—پروفیسر یحیٰ خالد

پروفیسر یحیٰ خالد
yahyakhalid42@gmail.com

—پاکستانی سفارت کاری—

کہتے ہیں کہ جو چپت آپ دشمن کے منہ پر بر وقت نہ لگا سکیں وہ پھر اپنے ہی منہ پر مار لیں ۔ 5 ستمبر کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کر کے اپنی نو لاکھ فوج میں مزید اضافہ کر کے اسی ہزار وادی کے کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے لاک ڈاؤن کرلیا ۔اب صورت حال یہ ہے کہ کشمیری سری نگر میں 55 دنوں سے ہندو قید میں ہیں ۔ اور حالت یہ ہے کہ رہائشیوں کو نہ تو کسی طرح کی خوراک مل رہی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی دوا دارو کا بندو بست ہے۔ جو تعلق پاکستان کا کشمیر سے ہے وہ کسی سے پوشیدہ ہیں ہے مگر اس لاک ڈاؤن کے خلاف حکومت پاکستان نے کسی قسم کی حرکت نہیں کی ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستان پوری دنیا میں اپنے وفود بھیجتا اور ساری دنیا کو بتاتا کہ ہندوستان نے ایک ایسا اقدم اٹھایا ہے کہ جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے صریحاً خلاف ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا حل کشمیریوں کا اس بارے میں حق خود ارادیت ہے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کر سکتے ہیں۔ اس لئے اسے دنیا کے سامنے لانا چاہیئے تھا۔ ہندوستان نے ادھر کشمیر میں کرفیو لگایا ادھر اُس نے ساری دنیا میں اپنے وفود بھیجے اور دنیا کو باور کروایا کہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اس لئے کسی کو اس میں بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ایک اور با ت کہ ایک بڑی تجارتی منڈی ہونے کے حوالے سے بھی دنیا میں ہندوستان کی آواز پاکستان سے زیادہ سنی جاتی ہے،اس لئے وہ سب کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ کشمیر میں جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ جائز ہے۔ یہاں تک کہ جب پاکستان نے اپنی دوست ریاستوں کو ‘اپروچ ‘کیا تو وہاں سے یہی جواب آیا کہ وہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اس لئے وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے ۔یہاں تک کہ سعودی عرب نے بھی اس کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ کہا ہے۔پاکستان کی طرف کوئی ایک وفد یا وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی ایک کوشش بھی ا س ضمن میں ہوئی ہی نہیں کہ ہندوستان نے یک طرفہ اقدام کر کے سکیورٹی کونسل کی گیارہ قراردادوں ، شملہ معاہدے اور لاہور ڈکلریشن کی خلا ف ورزی کی ہے۔ جب آپ کسی کو کچھ بتائیں گے ہی نہیں اور کسی بھی معاملے پر سفارت کاری ہی نہیں کریں گے تو کون آپ کا ساتھ دے گا۔ تو یہی ہوا کہ ہماری حکومت اور وزارت خارجہ اس امید میں بیٹھی رہی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے وزیر اعظم پاکستان کا موقف بھر پور طریقے سے پیش کریں گے۔ مگر 5 اور 27 ستمبر کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے اور اس فاصلے سے ہندوستان نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور ساری دنیا کوبتایا ہے کہ کشمیر میں جو کچھ بھی اُس نے کیا ہے وہ اس کیلئے حق پر ہے ۔ اسلئے کہ یہ اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں کوئی دوسرا ملک دخل اندزای نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی ہمارا اس معاملے میں ساتھ نہیں دیا اور ہم اس اقدام کے خلاف ایک ریزولیشن تک نہیں لا سکے اور ہمارے جہاں دیدہ اور لائق فائق وزیر خارجہ ہر دوسرے دن ملتان جا کر ایک بڑے جلسے سے خطاب فرماتے رہے اور مودی کو تڑیاں دیتے رہے کہ اُن میں ہمت ہے تو ایک مسلمانوں کے مجمعے سے خطاب کر کے دیکھیں۔ ہمارے دونوں لیڈر یعنی وزیر خارجہ اور وزیر ا عظم نیو یار ک میں جا کر کئی ایک سربراہان مملکت اور وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کرتے رہے مگر یہ ساری ملا قاتیں پس از مر گ واویلا تھیں اس لئے کہ اُن سے پہلے ہندوستان ان ممالک کی حکومتوں میں جا کر اپنا نقطہ نظر واضع کر کے اُن کو قائل کر چکاتھاکہ جو کچھ بھی ہندوستان نے کیا ہے وہ اپنی حدود کے اندر کیا ہے اس لئے کسی کو اس کی فکر نہیں ہونی چاہیئے۔ اسی لئے ہماری ان دونوں شخصیات کو ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک فی البدیع تقریر جنرل اسمبلی کے سیشن میں کی مگر افسوس کہ یہ بھی بعد از مرگ واویلاہی ثابت ہوئی۔ویسے بھی جنرل اسمبلی کی تقریریں محض تقریریں ہی ہوتی ہیں – کوئی فیصلہ کرنے والی تقریر ہو تو وہ صرف یو این او کی سکیورٹی کونسل میں ہوتی ہے اس لئے کہ یہ ادارہ مملکتوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے اوراس کے فیصلوں سے کوئی رو گردانی نہیں کرتا۔ ہم خان صاحب کے خطاب پر بغلیں بجا رہے ہیں اس لئے کہ یہ ایک بہترین تقریر تھی اور ہمارے کسی سربراہ مملکت نے اس سے پہلے اتنی مدلل اور کھل کر کبھی کوئی تقریر نہیں کی ۔اس کا اثر کس نے لینا ہے۔ ہم یہ تو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے حق ادا کر دیا ہے مگر کہاں ؟؟ حق تو ادا کیا ہے مگر سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر ہی پیٹی ہے۔ اور سچی بات تو یہی ہے کہ اس فورم پر کی گئی تقریروں کا کوئی فائدہ کسی بھی ملک کو آج تک نہیں ہوا۔اب سنا ہے کہ حکومت کوئی وفود اس سلسلے میں بیرون ممالک بھیج رہی ے مگر اس سے اب کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ہاں اگراس مسلے پر سکیورٹی کونسل کی میٹنگ بلوانے کی کو شش کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی فائد ہو جائے۔ اور سکیوریٹی کونسل کی بیٹھک کا حق بھی بنتا ہے اسلئے کہ دوماہ سے ایک بڑی آبادی زیر حراست ہے اور یہ انسانی بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں