شبلی فراز کا سی پی این ای رپورٹ پر جوابی خط،الزامات مسترد

اسلام آباد(سی این پی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے ذرائع ابلاغ کی آزادی کے بارے میں سی پی این ای کی سالانہ رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو ردکرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں عائد کردہ الزامات کے حق میں کوئی اعداد و شمار یا ثبوت فراہم نہیں کیے گئے،اس رپورٹ کے برعکس وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے 1973کے آئین کے مطابق اظہار رائے کی مکمل آزادی کو یقینی بنانے کو اولین ترجیح دے رکھی ہے ، آزادی صحافت اور ورکنگ جرنلسٹ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔یہ باتیں انہوں نے سی پی این ای کے صدر عارف نظامی کے نام خط میں کہیں ، جو یکم فروری کو بعض اخبارات میں شائع ہونے والی سی پی این ای کی رپورٹ کے حوالے سے تحریر کیااور رپورٹ میں بیان کردہ نکات کا پیراوائز جواب بھی دیا ۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹرشبلی فراز نے پیرا وائز کمنٹس میں پہلے نکتے کے جواب میں بتایا کہ سی پی این ای نے اپنی رپورٹ میں صحافیوں کے قتل یا ٹارگٹ کرنے کی تفصیلات اپنی رپورٹ میں نہیں دی،یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ صحافیوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں یا کسی اور نے ہدف بنایا ۔ دوسرے نکتے پروفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت کوویڈ 19کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی تفصیلات اکٹھی کر رہی ہے ،وزارت اطلاعات کوویڈ کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے صحافیوں کے اہلخانہ کی مالی معاونت کرے گی ۔تیسرے نکتے پر وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی شق کے مطابق پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد ہے ،ہر شخص آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے ،اگر حکومت کی جانب سے میڈیا پر کوئی قدغن لگانے کی کوشش کی ہے تو وزارت اطلاعات کے ساتھ شیئر کیا جائے ۔ چوتھے نکتے پر وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ نیب نے میرشکیل الرحمان کے خلاف کیس درج کیا ہے ،نیب خودمختار ادارہ ہے اس کارروائی کے حوالے سے وزارت کا کوئی کردار نہیں ہے اور قانون کے مطابق عدالتیں ریلیف فراہم کرنے کے لئے مکمل آزاد ہیں ۔پانچویں نکتے پر وفاقی وزیرنے کہا کہ غیر اعلانیہ سنسرشپ الزام کی کوئی بنیاد نہیں ہے ،پاکستان میں میڈیاکو مکمل آزادی حاصل ہے یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ملک بھر میں بے شمار میڈیا ہاہوسز بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔چٹھے نکتے پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ محمد حنیف اور سہیل وڑائچ کی کتابوں پر پابندی سے وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی تعلق نہیں ہے ،متعلقہ ادارے آزادی کے ساتھ دائرہ کار کے مطابق کام کررہے ہیں۔ساتویں نکتے پر وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ 6ہزار ڈمی اخبارات کی تعداد غیر منطقی ہے ۔ پی آئی ڈی کے ساتھ مجموعی طور پر 1642اِن لسٹیڈ اخبارات ہیں ‘اگر کچھ اخبارات کی اشاعت کو معطل کیا گیا ہے تو اسکی وجہ طویل عرصہ سے اشاعت نہ ہونا یا سرکاری ریکارڈ مکمل نہ ہونا ہے ،متلعقہ ادارے کی جانب سے بار بار ریمائنڈرز کے باوجود مطمئن کرنے میں ناکام رہنا شامل ہے ۔اس معاملے کی ذاتی طور پر انکوائری کرنا چاہتا ہوں سی پی این ای ڈیٹا شیئر کرے ۔آٹھویں نکتے پر وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ نکتہ پرائیویٹ میڈیا سے متعلق ہے یہ سوال متعلقہ مالکان سے متعلق ہے ،اس میں جو وزارت اطلاعات سے متعلق ہے اس بارے میں بتانا چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں صحافیوں کے لئے 8واں ویج بورڈ ایوارڈ کیا گیا ریڈیو پاکستان کے کنٹریکٹ ملازمین کے بارے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیس ٹو کیس اس کا جائزہ لیا جارہا ہے ، یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی طے شدہ قوائد و ضوابط پورے کرے گا اسے نوکری سے برخاست نہیں کیا جائے گا ۔ نویں نکتے پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ پیمرا ایک آزاد الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ہے اس کا مقصد پاکستان کی سماجی ثقافتی اقدار کا تحفظ اور ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی ہے اگر کسی میڈیا ہائو س کو پیمرا کی کارروائی سے متعلق اعتراضات ہیں تو وہ عدالتوں سے ریلیف کے لئے رجوع کریں ۔10ویں نکتے پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیز کے تحفظات کا وزارت اطلاعات و نشریات سے کوئی لنک نہیں ہے ، پی ٹی اے متعلق ادارہ ہے ،پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی آزاد ادارہ ہے ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں تفصیلات کو دیکھے اور سی پی این ای کی سوشل میڈیا کمپنیز کی ورکنگ کا بھی جائزہ لے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں